پُرتعیش مصنوعات کی درآمدات کم کرنے کیلئے ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد کرنے پر غور
نگران حکومت 6 ماہ سے بھی کم وقفے کے بعد ایک بار پھر جامع حکمت عملی کے تحت پُرتعیش اور غیر ضروری درآمدی مصنوعات کی طویل فہرست پر ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد کرنے کی حکمت عملی بنا رہی ہے جس کا مقصد ملک کے زرمبادلہ کے قلیل ذخائر میں تیزی سے ہونے والی کمی پر قابو پانا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ انتظامیہ 5 برآمدی شعبوں کے لیے گیس اور بجلی کے علاقائی طور پر مسابقتی نرخ بحال کرنے کے لیے بھی سرگرم ہے، برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کی آمد کو سہارا دینے کے لیے دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ چند دیگر ممکنہ تبدیلیاں بھی کی جاسکتی ہیں جو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے لیے قابل قبول ہوں۔
ذرائع نے بتایا کہ ان تجاویز پر خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے حالیہ اجلاسوں میں وسیع پیمانے پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس اقدام کی قیادت نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز کر رہے ہیں، جو آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کے درآمدی پورٹ فولیو میں (جوکہ گزشتہ سال کُل 55 ارب ڈالر کی تھیں) تیل کی درآمدات کے لیے 17 ارب ڈالر مختص کیے گئے، خوراک کے شعبے کے لیے بھی 9 ارب ڈالر کا بڑا حصہ مختص کیا گیا، جس میں پام آئل کی درآمدات کے لیے 3 ارب 60 کروڑ ڈالر بھی شامل ہیں، ٹیکسٹائل کی درآمدات تقریباً 3 ارب 70 کروڑ ڈالر کی رہیں، جس میں کپاس کے خام مال کی درآمدات کے لیے ایک ارب 70 کروڑ ڈالر شامل ہیں۔
بھاری ریگولیٹری ڈیوٹیز گزشتہ سال اگست میں لاگو کی گئی تھیں جب درآمدات پر مکمل پابندی ہٹانے کے لیے پچھلی حکومت عالمی دباؤ کا شکار تھی۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کے تحت کوئی بھی حکومت درآمدات پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی نہیں لگا سکتی تاہم صورتحال کے مطابق مختلف نوعیت کی ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد کی جا سکتی ہیں۔
مزید کن اشیا پر ڈیوٹی عائد کی جاسکتی ہے؟
حکام نے بتایا کہ اس بار تقریباً ایک ہزار 100 اشیا (تقریباً 30 فیصد) پر مختلف سطح پر ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد کی جاسکتی ہیں، گزشتہ برس اگست میں اس سے تقریباً 860 سے کم اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد کی گئی تھیں۔
علاوہ ازیں 3 سال پرانی گاڑیوں (چھوٹی اور لگژری دونوں) کی درآمد کے لیے طریقہ کار کے ضوابط میں تبدیلیاں بھی زیر غور ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ریگولیٹری ڈیوٹی کے اطلاق کے لیے زیر غور بہت سی اشیا برآمدی شعبوں (بشمول ٹیکسٹائل اور خاص طور پر کیمیکل، جوتے وغیرہ) کے لیے ضروری درمیانی خام مال سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔
وزارت خزانہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس میں سبسڈی شامل نہیں ہے لیکن اس کا مقصد پوری درآمدی لاگت کی وصولی ہے، اس میں پیٹرول پر 60 روپے اور ڈیزل پر 50 روپے مقرر کردہ پیٹرولیم لیوی کے ذریعے خاطر خواہ ٹیکس عائد کرنے کے علاوہ زر مبادلہ کی شرح میں ہونے والے نقصانات بھی شامل ہیں۔
یہ لیوی آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق 55 روپے سالانہ کی اوسط پیٹرولیم لیوی کو برقرار رکھنے کے لیے طے کی گئی ہے، یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ آنے والے مہینوں میں ڈیزل پر لیوی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
سبزی/کھانے کا تیل اب ریگولیٹری ڈیوٹی کے تحت آنے والی دوسری سب سے بڑی چیز ہو گی تاکہ اس کی کھپت کو کم کیا جا سکے اور زرمبادلہ کے نقصان پر قابو پایا جاسکے۔
آٹوموبائل کی درآمدات میں تبدیلیوں کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ چھوٹی گاڑیوں کی درآمد ان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے جائز ہوگی جو ہر سال 50 ہزار ڈالرز زرمبادلہ وطن بھیجتے ہیں جبکہ لگژری گاڑیوں (مثلاً فور بائی فور) کے لیے یہ حد 50 لاکھ ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں پی ڈی ایم حکومت نے 33 کیٹیگریز کی 860 اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی لیکن آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے بین الاقوامی دباؤ کے پیشِ نظر 3 ماہ بعد یہ پابندی ہٹالی گئی تھی۔