نواز شریف کی وطن واپسی سے مسلم لیگ (ن) سیاسی مقبولیت میں اضافے کیلئے پُراعتماد
4 برس کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد بالآخر سابق وزیراعظم اور سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی وطن واپسی کی تاریخ طے پاگئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شہباز شریف نے ’ڈان نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو اپنے آبائی شہر لاہور واپس پہنچ جائیں گے، اس حوالے سے حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے کہ وہ کس ایئرلائن کے ذریعے وطن واپس پہنچیں گے۔
کہا جا رہا ہے کہ پارٹی سربراہ کے شاندار استقبال کے لیے تیاریاں کی جا رہی ہیں، تاہم گزشتہ چند ماہ کے دوران نواز شریف سے ملاقات کرنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی اس حوالے سے کوئی واضح رائے نہیں ہے کہ ان کی واپسی کے بعد کیا ہوگا، وہ ملک کے سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی چیلنجز سمیت مہنگائی، روپے کی بےقدری اور عدم استحکام پر عوام کے سخت ردعمل سے آگاہ ہیں۔
نواز شریف جانتے ہیں کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کی پارٹی نے بہت زیادہ سیاسی مقبولیت کھو دی ہے، اسے بحال کرنے اور سیاست سے تاحیات نااہلی کے معاملے میں بھی انہیں سنگین قانونی چیلنجز کا سامنا ہے، ان کے اہم سیاسی حریف جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے کے باوجود نواز شریف اس بات سے آگاہ ہیں کہ اگلے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
گزشتہ 4 برسوں میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اہم سیاسی معاملات پر نواز شریف کی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے لندن آتے جاتے رہے ہیں، ان کے بھائی شہباز شریف نے بھی بحیثیت وزیراعظم ان سے مشورہ لینے کے لیے لندن کے متعدد دورے کیے۔
’ملک کو بحالی کی ضرورت ہے‘
رہنما مسلم لیگ (ن) احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ہم واقعی نواز شریف کی واپسی کے منتظر ہیں، ملک کو بحالی کی ضرورت ہے، ملک کو اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، نواز شریف ہی ایک ایسے سیاستدان ہیں جو تمام سیاسی گروہوں سے رجوع کر سکتے ہیں اور تمام اداروں کو ہم آہنگی سے کام کرنے کے لیے قیادت فراہم کر سکتے ہیں، پاکستان کو ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔
قید کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی کی بے پناہ مقبولیت کا مقابلہ کرنے کے لیے نواز شریف کی حکمت عملی حوالے سے سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں اپنے ناقدین کے پاس جانا ہے، جن لوگوں کو عمران خان نے دھوکا دیا اور سبز باغ دکھائے۔
نواز شریف کو وطن واپسی پر درپیش چیلنجز سے بخوبی واقف پارٹی رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کی شخصیت کا بخار اترنے میں ابھی وقت لگے گا لیکن میں نواز شریف کے اثر پر یقین رکھتا ہوں، ان کی واپسی سے ضرور فرق پڑے گا، وہ لوگوں کو جوڑیں گے، لوگ ان سے جڑیں گے اور امید ہے کہ نفرت کی سیاست کو کسی حد تک ختم کر دیں گے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ نواز شریف اپنی تاحیات نااہلی کو عدالتوں میں چیلنج کریں گے، انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو جوابدہ ٹھہرانے کے حوالے سے نواز شریف کے اس مؤقف کو دہرایا جو وہ گزشتہ 2 برسوں کے دوران نجی اور عوامی سطح پر کہہ چکے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پارٹی احتساب کے اس مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے گی، ہم اسے ہر فورم پر اٹھائیں گے، انہوں نے ملک اور معیشت کے ساتھ جو کیا وہ جرم ہے اور انہیں اس کی ذمہ داری لینی ہوگی۔
پی ڈی ایم حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی واضح موجودگی کے حوالے سے سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ اگر معاشی صورتحال بہتر ہوتی ہے تو ہمارا سیاسی کلچر مضبوط ہوگا، ہمارا سیاسی اسٹرکچر خراب معیشت کی وجہ سے کمزور ہے، پارٹی کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے سے نواز شریف پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
احسن اقبال نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ثابت ہو چکی ہے کہ نواز شریف کو سازش کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا، یہ اس وقت کے ججوں اور جرنیلوں کی ایک سازش تھی جنہوں نے ایک ناتجربہ کار، انا پرست، نااہل لیڈر کو اقتدار میں لانے کے لیے ایک نجات دہندہ حکومت کو برطرف کردیا، صرف اس لیے کیونکہ ان کی بیویاں اور بچے اس کے مداح تھے۔
’چیلنجز کا کوئی آسان حل نہیں ہے‘
تاہم احسن اقبال نے بھی تسلیم کیا کہ ملک کے چیلنجز کا کوئی آسان حل نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ابھی کسی کے پاس جادو کی چھڑی نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف نے ماضی میں نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ملک کو متحد کیا تھا، اب انہیں اقتصادی نیشنل ایکشن پلان کے لیے بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔
مسلم لیگ (ن) کی اتحادی سابق رکن صوبائی اسمبلی جگنو محسن نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف ریاست کی جانب سے اپنے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے شدید دکھی ہیں، وہ حال ہی میں سبکدوش ہونے والی پی ڈی ایم حکومت کے برے اسٹریٹجک فیصلوں کی وجہ سے اپنی سیاسی مقبولیت کے نقصان پر بھی مایوس ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ سیاسی میراث کے بارے میں فکر مند ہیں اور اقتصادی بحالی اور علاقائی تعاون کے نظریے کو لاگو کرنے کے لیے صرف عہدہ نہیں بلکہ مؤثر طاقت چاہتے ہیں۔
جگنو محسن نے کہا کہ وہ اس چیلنج کی گہرائی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بات کا واضح ادراک نہیں رکھتے کہ انہیں اپنے اس نظریے کے نفاذ کے لیے ریاست سے کتنا تعاون مل سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی برسوں سے ریاست اور حالات کی وجہ سے عدم تحفظ پیدا ہوتا رہا ہے اور پاکستان کی سیاسی قیادت وقت کے ساتھ اس قدر کمزور ہو گئی ہے کہ اصلاحات کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہے، لیکن اس وقت اگر کوئی نئی شروعات کرنے میں مدد کر سکتا ہے تو وہ نواز شریف ہیں۔