ایسا لگ رہا ہے وفاق میں نگران حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے، سینیٹر پیپلز پارٹی
سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے موجودہ نگران حکومت کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت قرار دے دیا۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں اینکر پرسن نادر گرامانی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما نے نگران وفاقی کابینہ اور حکومت سندھ پر سوالات اٹھا دیے۔
گزشتہ روز پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل (سی ای سی) کے اجلاس کے دوران زیر بحث آنے والے معاملات پر روشنی ڈالتے ہوئے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پارٹی کے مشاورتی فورم میں وفاقی کابینہ کی تشکیل پر تفصیلی بات ہوئی ہے، اراکین نے وفاقی کابینہ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قریب سمجھے جانے والے سابق بیورو کریٹس اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری رہنے والے فواد حسن اور شہباز شریف کی پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے دوران ان کے ہمراہ کام کرنے والے، ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران ان کے معاون کے طور پر کام کرنے والے احد چیمہ کی وفاقی کابینہ میں شمولیت پر سوال اٹھاتے ہوئے پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت قرار دے دیا۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے، ان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کے حوالے سے مینڈیٹ سابق صدر مملکت اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے سپرد کردیا گیا ہے، آصف زرداری یہ معاملہ اٹھائیں گے۔
نگران حکومت سندھ کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے رہنماؤں کے خلاف مقدمات بنا رہی ہے، سی ای سی اجلاس کے دوران سابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نگران صوبائی حکومت کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی، مراد علی شاہ نے کہا جو صوبائی حکومت کر رہی ہے یہ اس کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
انہوں نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں کچھ اراکین کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ آئی بی کچھ غلط قسم کے کام کر رہی ہے، لوگوں کو پریشان کر رہی ہے ، کچھ دوسری کارروائیاں بھی ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے کچھ رہنماؤں کو بھی تحفظات ہیں کہ جو سندھ میں نگران حکومت ہے وہ کیسز بنا رہی ہے، وہ پیپلز پارٹی کی سابقہ صوبائی حکومت کے خلاف مقدمات بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر تو نگران حکومت کا یہ کام نہیں ہے ، نگران حکومت کا کام الیکشن کرانا اور روز مرہ کے امور کی نگرانی کرنا ہے ، اگر وہ اس طرح کے اقدمات کی طرف چلی جائے کہ انہوں نے کیسز بنانے ہیں، لوگوں کے پیچھے جانا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر مسائل پیدا ہوں گے۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ نگران حکومت جتنا اپنے مینڈیٹ سے باہر جائے گی تو مسائل ہوں گے، اس پر سیاسی جماعتیں رد عمل دیں گی، انہیں اس مینڈیٹ تک محدود رہنا چاہیے جو گزشتہ حکومت میں طے کیا گیا تھا، اس کے علاوہ کچھ اور کرنا ان کا کام نہیں ہے، جو دیکھنے میں آرہا ہے، اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
گزشتہ روز نیب قوانین میں متنازع ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کو 50 کروڑ روپے سے کم کے وائٹ کالر جرائم میں ملوث سیاستدانوں اور بااثر شخصیات پر ہاتھ ڈالنے کا دوبارہ اختیار دے دیا گیا، جس کے بعد تقریباً ایک ہزار 800 بند کیسز اب دوبارہ کھل جائیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بظاہر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، عمران خان، شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی اور شوکت عزیز کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف کیسز بھی دوبارہ کھولے جائیں گے۔
رپورٹس کے مطابق دیگر بڑی شخصیات جن کے مقدمات دوبارہ کھولے گئے ہیں، ان میں سابق وزرا خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف، اکرم درانی، سلیم مانڈوی والا، شوکت ترین، پرویز خٹک، عامر محمود کیانی، خسرو بختیار اور فریال تالپور کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی شامل ہیں۔
اس طرح کی خبروں پر رد عمل دیتے ہوئے سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ میڈیا کو خبر چلانے سے قبل کچھ تحقیق کرنی چاہیے، انہوں نے کہا کہ ہمارے بند کیسز کا پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی ترامیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
انہوں نے اپنے خلاف کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ متعلقہ جج نے میرٹ پر دیا تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ نیب نے غلط طور پر کیس میں میرا نام ڈالا۔
’سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں دائر ہوں گی‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کیسز کیسے دوبارہ کھل سکتے ہیں جب کہ عدالتوں نے ان کا فیصلہ کر دیا ہے، اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف ابھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے، اس کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں دائر ہوں گی، اس کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا، وہ اس کا فیصلہ کرے گا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق مزید اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کوئی مذاق نہیں ہے، کئی نیب کیسز کا اس حکم سے پہلے فیصلہ ہوچکا، ان سے ان ترامیم کا کوئی تعلق نہیں ہے، پھر سنسنی خیز خبریں دینے کے لیے مجھ سمیت دیگر لوگوں کے نام لیے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بظاہر اپنی سابق اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو انتخابات کی تاریخ نہیں پتا لیکن ایک جماعت الیکشن کی تاریخ دے رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک جماعت جو ہے وہ خود تو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرے، وہ کہہ رہے ہیں کہ فروری میں الیکشن ہیں، مجھے نہیں پتا کہ الیکشن کب ہیں، آپ کو نہیں پتا کہ الیکشن کب ہیں، چیف الیکشن کمشنر کو نہیں پتا کہ الیکشنز کب ہیں لیکن اس جماعت کو پہلے سے پتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کیا ہے تو پھر میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کی بات نہ کروں تو کیا بات کروں۔