سرحد پر ’خطرناک صورتحال‘ کے باوجود انتخابات میں تاخیر کا امکان نہیں ہے، نگران وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مشرقی اور مغربی سرحد میں صورت حال خطرناک ضرور ہے لیکن اس کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر کا امکان نہیں ہے۔
امریکی نشریاتی ادارہ وائس آف امریکا (وی او اے) اردو کو دیے گئے انٹرویو میں نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حل نہ ہونے والے ایجنڈے میں مسئلہ جموں و کشمیر سب سے پرانا تنازع ہے اور بھارت کے غیر قانونی طور پر زیرقبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا مسئلہ پاکستان تمام عالمی اور علاقائی فورمز پر اٹھاتا رہے گا۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان تمام دستیاب کثیرالجہتی اور علاقائی فورمز پر مسئلہ کشمیر کا دفاع اور وکالت کرتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی جس انداز میں ہو رہی ہے اس سے کشمیر کو ایک بڑی جیل کی صورت حال کا سامنا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پوری آبادی کو ایک قید خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے اور لوگوں کی آواز دبائی جا رہی ہے۔
’انتخابات میں مداخلت کا تاثر درست نہیں‘
انتخابات کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اسی قیاس آرائیاں نہیں ہیں کہ نگران حکومت کو مداخلت کرکے اس کو ختم کرنا چاہے، بنیادی طور پر آئینی اور قانونی لحاظ سے یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے اور ہمیں یقین ہے وہ اپنے کام کو انتہائی ایمان داری سے سرانجام دینے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس عمل کا آغاز کر چکے ہیں، جس میں دو تین آئینی تقاضے ہیں وہ پورے کر رہے ہیں، شاید حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہیں اور جلد ہی وہ خود دن کا تعین بھی کردیں گے اور اس کا اعلان بہت جلد ہوگا اور اس کا قانونی اختیار ان کے پاس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے عمل کی معاونت کے سلسلے میں ہماری حکومت کئی اقدامات کرچکی ہے، اس کے لیے تشہیر کم ہونے کا ایک پہلو ہوسکتا ہے لیکن قطعاً ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ انتخابات کی معاونت کے حوالے سے ہم اقدامات نہیں کر رہے ہیں بلکہ نگران حکومت روزانہ کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کی ضروریات پوری کر رہی ہے اور جہاں ان کو تعاون درکار ہوتا ہے ہم بھرپور تعاون کرتے ہیں۔
نگران وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ اگر سپریم کورٹ کی جانب سے 90 روز میں انتخابات کا حکم دیا گیا تو حکومت کو اعتراض ہوگا تو انہوں نے کہا کہ حکومت کا اعتراض نہیں بنتا، اگر نگران حکومت کا مینڈیٹ نہیں ہے بلکہ یہ الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت معاونت کرے گی اور ہمارا مالی وسائل یا سیکیورٹی فراہم کرنے کا کردار مکمل تیاری اور نیک نیتی کے ساتھ نظر آئے گا اور ہم الیکشن کمیشن کو کو مکمل تعاون کریں گے۔
نگران وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ مغربی اور مشرقی سرحدیں غیر محفوظ ہوتی جارہی ہیں تو اس کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر تو نہیں ہوگی، جس پر انہوں نے کہا کہ سردست مجھے ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
انہوں نے کہا کہ گرچہ مغربی اور مشرقی محاذ پر ایسی خطرناک صورت حال ضرور ہے جہاں ہماری سیکیورٹی خطرات اور جوابی ردعمل کی ضرورت بڑھ رہی ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم بیک وقت اس پر بھی قابو پالیں گے اور انتخابی عمل بھی مکمل کرالیں گے۔
’میڈیا کسی کا بھی نام لے سکتا ہے اور نشر کرسکتا ہے‘
پاکستان میں اظہار رائے پر پابندی کے حوالےس ے سوال پر انہوں نے کہا کہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے، عمران خان سمیت ہر کسی کا نام لیا جاسکتا ہے اور نشر کیا جاسکتا ہے، اس حوالے سے ہمارے اشاریے خطے میں بہت بہتر ہیں، ملک میں میڈیا کو آزادی ہے، میڈیا حکومت، اس کے اداروں یا معاشی امورکے حوالے سے کسی بھی مسئلے پر آواز اٹھا سکتا ہے۔
ان سے سوال کیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف مقدمات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ان کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر اگر جا رہا ہے تو یہ درست تاثر نہیں ہے اور امید بھی یہ کرتا ہوں کہ عدالتی عمل شفاف ہو تاکہ ان کے پیروکار اور دوسرے مبصرین سب کو یہ نظر آئے کسی کو سیاست سے دور کرنے کا عمل نہیں ہے بلکہ قانون اپنی راہ لینا چاہتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ قانون اپنی راہ لے، اس کا اطلاق میری ذات پر بھی ہونا چاہیے اور باقی لوگوں پر بھی ہونا چاہیے۔
’ہر حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کے چہرے کا تاثر دیا جاتا ہے‘
انوارالحق کاکڑ نے نگران حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کا سویلین چہرے کا تاثر قرار دینے پر کہا کہ یہ تاثر ہر حکومت کے حوالے سے آتا ہے، یہ نیا تاثر نہیں ہے، عمران خان کی حکومت 2018 میں بنی تو سلیکٹڈ حکومت کا الزام اسی بنیاد پر لگایا جاتا تھا اور جب پی ڈی ایم کی حکومت آئی تو ان پر بھی یہی تاثر تھا اور اس سے قبل بھی اسی طرح کے الزامات لگائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات میں اس قسم کے تاثرات ابھرتے ہیں اور جب حکومت آتی ہے، پھر نئی چہرے اور نئی قیادت پر تسلسل کے ساتھ یہ تاثر قائم رہتا ہے، اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت آئینی عمل کا تسلسل ہے، آئینی مینڈیٹ رکھنے والے قومی اسمبلی میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف نے نامزد کیا تھا اور یہ نگران حکومت اسی پیداوار ہے۔
’افغانستان اور خطے میں امن کیلئے کردار ادا کر رہے ہیں‘
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان خطے اور افغانستان میں پائیدار امن کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور تمام متعلقہ فورمز پر طالبان اور عالمی برادری کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت عہد کیا تھا کہ افغان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت غیر قانونی تجارت سمیت افغان ٹرانزٹ کے مسائل پر توجہ دے رہی ہے، ہمارے تجارتی تعلقات نہ صرف افغانستان بلکہ تمام وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی بہتر ہو رہے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف افغانستان کے اندر سرجیکل یا ڈرون حملے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس اپنے دفاع کا حق ہے، ہم اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے جہاں جہاں ضروری سمجھیں گے کہ ہمیں کارروائی کرنی چاہیے تو ہم ضرور کریں گے، خطرے کے پیش نظر جب وہ ضرورت ہمارے سامنے آئی گی تو ہم اس وقت مناسب فیصلے کریں گے۔
نگران وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی طرف سے چھوڑے گئے اسلحے کے دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ میں آنے سے متعلق ان کے بیان کا مقصد امریکا یا کسی دوسرے ملک پر کوئی الزام لگانا نہیں تھا، اس حوالہ سے جو تاثر دیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے۔
’پاکستان قطعاً تنہائی کا شکار نہیں‘
انہوں نے پاکستان کی سفارتی تنہائی کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ میں اس تاثر کا قائل نہیں ہوں اور نہ ہی اس زاویے سے دیکھ رہا ہوں میرے خیال میں بین الاقوامی سطح پر انتظامات ہیں، بلاکس، بڑی طاقتوں یا ان کے ساتھ جڑی ہوئی درمیانی طاقتوں کے بہت سارے جگہوں میں مشترکہ مفادات ہوتے ہیں تو قریب آتے ہیں اور اختلاف ہوتا ہے تو دور ہوجاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جی سی سی کی ہائیڈروکاربن کی بڑی برآمدات ہیں تو کیا وہ چین کی ڈیڑھ ارب کی آبادی کو چھوڑ دیں گے اور ایک نئے بلاک جس کا خیالی تصور پیش کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ جڑ جائیں گے تو میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔
امریکا سے تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ خطے میں پاکستان کے تعلقات کے اپنے تقاضے ہیں اور انہی تقاضوں کے تحت پاکستان کے رشتے استوار ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ 7 دہائیوں سے مغرب کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں وہ آنے والی دہائیوں میں بھی برقرار رہیں گے۔