• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

جنرل باجوہ کی توسیع کیلئے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، فیض حمید نے رابطہ کیا، سینیٹر مشتاق احمد

شائع October 1, 2023
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری ان بڑی جماعتوں پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر عائد ہوتی ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری ان بڑی جماعتوں پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر عائد ہوتی ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے جماعت اسلامی سے رابطہ کیا تھا۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایوان بالا کے قانون ساز ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں اینکر پرسن نادر گرامانی سے گفتگو کر رہے تھے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد کی حکومت میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا، دونوں حکومتوں کی بنیادی پالیسیاں ایک سی تھیں، دونوں اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرکے ان کی خوشنودی کے لیے حکومت میں آئیں، پی ٹی آئی آخر وقت تک بلکہ حکومت سے نکلنے کے بعد بھی ڈیل کی آفر کرتی رہی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدہ، ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافہ، کرپشن کے الزامات اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سمیت تمام معاملات میں یہ سب ایک تھے، میں ان کے خلاف کھڑا تھا، میں ان جماعتوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا، ملک اگر بحران کا شکار ہے تو اس کی وجہ ان جماعتوں کی حکومت اور ان کی پالیسیاں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ دیکھیں کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع ہونے والے دھماکوں میں 50 سے زائد شہری جاں بحق ہوئے، دل دکھی ہے، یہ سیکیورٹی کی ناکامی ہے، یہ انٹیلی جنس اور حکومتی ناکامی ہے، نگران حکومت کی نااہلی، نالائقی اور ناکامی ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومت ایک ہی تھیں، ان کو اسٹیبلشمنٹ کا سکہ کہہ لیں یا امریکا اور اشرافیہ کے سکے کے دو رخ ہیں، ہم نے پہلے دن فیصلہ کرلیا تھا کہ ہم ان دونوں کے پاس نہیں جائیں گے، عوام اور آئین کی بات کریں گے، ہم ان دونوں کے خلاف اور عوام کے ساتھ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تینوں جماعتوں، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ بنادیا، انہوں نے پارلیمنٹ کو انگوٹھا چھاپ بنا دیا ہے، وہ اسکرپٹڈ کارروائی کر رہی ہے جس کی ذمے دار یہ بڑی پارٹیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان جماعتوں کی وجہ سے پارلیمنٹ عوام کی امیدوں کا مرکز نہیں رہی، وہ اب فیصلو ں کا مرکز نہیں رہی، طاقت کا مرکز نہیں ہے۔

جماعت اسلامی کے رہنما کا کہنا تھا کہ آپ دیکھیں ملک میں دہشت گردوں کا راج ہے، دیکھیں بجلی کے بلوں کے ذریعے لوگوں کا خون نچوڑا جا رہا ہے، بدترین مہنگائی ہے، بدترین قسم کی بے روزگاری ہے، لوگ پریشان ہیں لیکن ان لوگوں نے ریکوزیشن کے باوجود ایوان بالا کا اجلاس طلب نہیں کیا۔

اس سوال پر کہ مسلم لیگ (ن) کیوں سمجھتی ہے کہ اس وقت سینیٹ کا اجلاس ضروری نہیں ہے، سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ سب چاہتے ہیں کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہوں، یہ سب عوام کا سامنا نہیں کر سکتے، عوام کے پاس جا نہیں سکتے، یہ سب دستور سے انحراف کا ارتکاب کر رہے ہیں، اس لیے یہ بڑی پارٹیاں اس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں بلا رہیں کہ یہ بے نقاب ہوں گے، ان کے عوام کے خلاف کیے گئے اقدامات کھلیں گے، عوام کے سامنے آئیں گے، اس لیے یہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی ہمت نہیں کر رہے۔

ان کا کہنا تھا جب آپ ایک دفعہ دستور سے انحراف شروع کردیں جیسا کہ 90 روز میں انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا تھا، اب جب کہ اس مدت سے انحراف کیا گیا ہے تو اس کے بعد کسی بھی وعدے پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، دستور کے لکھے کی ایک قانونی اہمیت ہے، وہ عمرانی معاہدہ ہے، الیکشن کمیشن کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت اس وجہ سے نہیں ہے کیونکہ انہوں نے پہلے ایک تاریخ دی، اب دوسری تاریخ دی ہے، کل کو تیسری تاریخ دے سکتے ہیں، جب انحراف کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے تو پھر وہ کہیں رکتا نہیں ہے۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر نے کہا کہ سینیٹرز کی جانب سے دستخط واپس لیا جانا ایک ڈرامہ ہے، یہ پارلیمنٹ کی بے توقیری ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو نکالنے کے لیے تحریک عدم اعتماد کا طریقہ استعمال کیا گیا، وہ آئینی تھا لیکن اس کی کامیابی کے لیے جو مطلوبہ تعداد چاہیے تھی، وہ کہاں سے آئی، وہ بی اے پی، جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کی جانب سے آئی، یہ جماعتیں کس کا اثاثہ تھیں، یہ کس کی ٹوکری میں پڑی ہوئی تھیں، ان کا اختیار کس کے پاس تھا، یہ سب کو پتا ہے، اس لیے پہلے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کی گئی، پھر قانونی طریقے سے عمران خان کو ہٹایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف صرف میری ترامیم ایوان اور قائمہ کمیٹیوں میں تھیں، میں ان کے خلاف کھل کر کھڑا رہا، میرے اوپر اس وقت بہت دباؤ ڈالا گیا، جنرل (ر) فیض حمید نے بھی مجھ سے رابطے کیے، مجھے حمایت کا کہا گیا لیکن میں نے کہا کہ یہ میرا اور میری پارٹی کا اصولی مؤقف ہے، میں اس پر قائم رہوں گا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اس وقت مجھے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے بتایا کہ عمران خان نے اس وقت کے آرمی چیف کو توسیع کی آفر کی لیکن وہ ناکام ہوگیا، پھر ہم نے انہیں سینے پر ہاتھ رکھ کر یقین دلایا کہ ہم آپ کے لیے یہ کام کرسکتے ہیں، ہم آپ کے لیے ان سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں تو اس لیے ہم یہ کام کرنے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے کہا کہ اس کام کے نتیجے میں آپ اپنا اصولی مؤقف کھو چکے ہیں، اصولی مؤقف ضائع کرچکے ہیں، انہوں نے صرف اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی اور مستقبل میں اقتدار کے لیے اپنا راستہ ہموار کرنے کے لیے یہ کام کیا۔

ان کا کہنا تھا نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے، وہ 4 مرتبہ حکومت کرچکے اور ناکام ہوچکے، ملک کی موجودہ صورتحال کی ذمی داری ان بڑی جماعتوں پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر عائد ہوتی ہے۔

جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا کہ پس پردہ ڈیل کرکے ایک کو ہٹا کر دوسرے کو لائے جانے والے ایک ہی طرح کے مہرے ہیں، اب عوام میں شعور آچکا، اب کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی، عوام اب اس چکر کو سمجھ چکے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024