• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

احتساب سب کیلئے ہونا چاہیے، 75 برسوں میں سیاستدان زیادہ نشانہ بنے ہیں، شہباز شریف

شائع October 6, 2023
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف پریس کانفرنس کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف پریس کانفرنس کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ احتساب سب کے لیے ہونا چاہیے، آج تک احتساب کی لاٹھی صرف سیاستدانوں پر چلی ہے اور یہ تاریخ کا سیاہ باب ہے، احتساب وہ ہے جو سامنے صاف نظر آتا ہو اور لوگ اس کو تسلیم کرتے ہوئے نظر آتے ہوں، 75 سالوں میں احتساب کا سب سے زیادہ نشانہ سیاستدان بنے ہیں۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ آپ کے علم میں ہے کہ میاں نواز شریف 21 اکتوبر کو تشریف لا رہے ہیں اور اب آپ کو بار بار یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ وہ آرہے ہیں یا نہیں آرہے ہیں، یہ بات ختم ہو جانی چاہیے۔

انہوں نے اپنی 16 ماہ کی مخلوط حکومت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت میں ہمیں ہمالیہ نما چیلنجز اور مشکلات بھی ملیں، دھرنے اور لانگ مارچز بھی تھے، تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب بھی آیا، پچھلی حکومت سے ٹرانسفر ہونے والی مہنگائی میں اضافہ ہو رہا تھا اور آئی ایم ایف کا بہت بڑا چیلنج ہمارے سامنے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط طے کی تھیں اور پھر خود ہی ان تمام شرائط کو ماننے سے انکار کردیا تھا اور جب تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ قریب آرہا تھا تو انہوں نے اپنی ذاتی سیاست اور اپنے ذاتی مقاصد کے لیے ریاست کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا، یہ وہ عوامل ہیں جو آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور ہم فی الفور اپنی سیاست کو بچانے کے لیے ریاست کو ڈبو دیتے، یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن بطور ایک پاکستانی اور ایک ذمے دار حکومت کے سربراہ ہونے کے ناطے میرا فرض تھا کہ اگر سیاست کو نقصان پہنچتا ہے تو پہنچے، ریاست بچ جائے۔

’یہ کہنا مناسب نہ ہوگا کہ 16 ماہ میں ہم ہر میدان میں کامیاب ہوئے‘

انہوں نے کہا کہ پھر پاکستان کی تاریخ سب سے بڑا سیلاب آیا، اس سے ہم نے نمٹنے کے لیے ہم نے جو بھی وسائل اور توانائیاں صرف کیں، مہنگائی بتدریج بڑھ رہی تھی اس پر ہم نے قابو پانے کی پوری کوشش کی، معاشی بدحالی ہمیں ورثے میں ملی اور لانگ مارچ اور دھرنے بالآخر 9 مئی 2023 کو انتہائی نکتے پر پہنچ گئے جہاں پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بغاوت ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود آئی ایم ایف کا معاہدہ طے پایا، 2 ہزار ارب روپے کا کسان پیکج دیا گیا اور اس کے نتیجے میں اس سال گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی، صوبائی حکومتوں کی کوشش سے کپاس کی پیداوار میں بھی بہتری آئی ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ہم 16 ماہ میں ہر میدان میں کامیاب ہوئے تو یہ کہنا مناسب نہیں ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہم نے مسائل حل کرنے کے لیے جان توڑ کوشش کی۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اگر خدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہو جاتا تو کیا صورت ہوتی، پیٹرول پمپ خالی ہوتے اور قطاریں لگی ہوتیں، زندگی بچانے والی ادویات ناپید ہوتیں، ہماری ضروری درآمدات ان کی ایل سیز نہ کھل پاتیں اور اگر وہ کھلتیں بھی تو باہر کے بینک ان کو منظور نہ کرتے، روزمرہ کی اشیا نہ مل رہی ہوتیں، بینکوں پر چڑھائی ہو چکی ہوتی اور لوگ اپنے پیسے نکالنے کے لیے وہاں توڑ پھوڑ کر رہے ہوتے، صنعتوں سے لاکھوں لوگ بیروزگار ہو جاتے اور عالمی اداروں سے ایک دھیلا بھی نہ ملتا، یہاں ہر طرف ہنگامہ اور جلوس نکلے ہوتے، میری نظر میں پاکستان کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی مدد کی اور میرے قائد نواز شریف نے اس میں میرا پورا ساتھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ 1990 میں جب نواز شریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تھے تو اس وقت جو معاشی اصلاحات آئی تھیں وہ پورے پاکستان کے لیے ایک نیا ماڈل تھا، لوگ باتیں کر رہے تھے کہ کیا پاکستان اتنی بڑی اصلاحات کا متحمل ہو سکتا ہے، یہ اس وقت پاکستان کے روپے کی قدر بھارت کے روپے سے زیادہ تھی اور بھارتی وزیر اعظم نے نواز شریف کے اصلاحاتی ماڈل کو وہاں نقل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 1997 میں جب نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو 28 مئی کو پاکستان نے بھارت کے دھماکوں کے جواب میں 6 دھماکے کیے اور پاکستان ایٹمی طاقت بنا، جو ترغیبات اور دھمکیاں دی گئیں وہ آپ سب کے سامنے ہیں، پھر وزیر اعظم واجپائی بذریعہ روڈ پاکستان تشریف لائے اور مینار پاکستان جا کر انہوں نے کہا کہ جب پاکستان بنا تو ہمیں گھاؤ لگے تھے اور آج ہم پاکستان کو دل سے تسلیم کرتے ہیں، یہ پاکستان کی تاریخی اخلاقی فتح تھی۔

شہباز شریف نے کہا کہ اس کے بعد کارگل کا واقعہ ہو گیا اور ہر چیز پر پانی پھر گیا یا تو کارگل کے ذریعے کشمیر فتح کر لیتے تو آج تاریخ اور ہوتی، کارگل کے واقعے کے شدید نقصانات سب کے سامنے ہیں، بین الاقوامی سطح پر ہمارا بائیکاٹ کر دیا گیا اور کارگل کے لیے نواز شریف کو بے بنیاد طور پر ذمے دار ٹھہرانے کی بھونڈی کوشش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ 4 جولائی کو نواز شریف امریکا تشریف لے گئے اور وہاں صدر بل کلنٹن سے ملاقات ہوئی اور اس کے نتیجے میں کارگل کی لڑائی بند ہوئی، نواز شریف نے پاکستان کو تو بچا لیا لیکن اپنے اقتدار کو انہوں نے قربان کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2017 سے 2018 تک کا سارا دورانیہ آپ کے سامنے ہے، میں جانتا ہوں کہ نواز شریف نے سی پیک کو پاکستان لانے کے لیے کیا کاوشیں کیں اور اس کے رستے میں کیا کیا پہاڑ نما رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، چین کے صدر شی جن پنگ کا ستمبر 2013 میں دورہ پاکستان یقینی بنانے کی کوشش کی گئی تو اس سے چند رات پہلے 11 بجے چینی سفیر نے مجھے کہا کہ دورہ ملتوی ہو گیا ہے کیونکہ یہاں دھرنے والے اٹھنے کو تیار نہیں تو ہم کوئی سیکیورٹی رسک نہیں لے سکتے، میں نے نواز شریف سے بات کی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس کا کوئی حل نکالو ورنہ پاکستان کا نقصان ہو جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ میں نے پھر جنرل راحیل شریف کو فون کیا اور اگلے دن 2 ستمبر 2013 کو ملاقات طے ہو گئی، میں نے چینی سفیر کو بھی کہا کہ آپ بھی ساتھ چلیں تو وہ بھی رضامند ہو گئے لیکن بعد میں انہوں نے معذرت کر لی، جنرل راحیل اس وقت چین کے وزیر دفاع سے بات کرنے گئے اور واپس آکر بتایا کہ وہ دورے کے لیے نہیں مان رہے۔

انہوں نے کہا کہ چینی سفیر نے کہا کہ میں نے خود دھرنے والوں سے کہا کہ آپ تین دن کے لیے اُٹھ جائیں اور پھر چلے جائیں لیکن دھرنے والوں نے کہا کہ نہیں ہم یہاں آرام سے بیٹھے ہیں، کیا اس وقت نواز شریف یہ سب اپنی ذات کے لیے کر رہا تھا یا پاکستان کے کروڑوں عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کر رہا تھا تاکہ ان ملکوں کا مقابلہ کیا جا سکے جو اس وقت تیزی سے ترقی کر رہے تھے۔

’نواز شریف 21 اکتوبر کو عوام کو ملک کی معاشی بحالی کا منصوبہ خود بتائیں گے‘

ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں نواز شریف کو بدترین سازش کے ذریعے پاناما سے اقامہ میں سزا دلوائی گئی، پاناما میں 300 سے 400 لوگوں کے نام شامل تھے جن میں سیاستدان بھی شامل تھے، بہت شور مچا کر کہا گیا کہ ان سیاستدانوں کا احتساب کریں گے جن کا نام پاناما میں آیا ہے، میاں نواز شریف کو تو نام ہی نہیں تھا اور پھر کس طرح اقامہ میں ان کو سزا دلوائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ وہاں سے ترقی اور خوشحالی کے سفر کر کالی ضرب لگائی گئی، ایک ماڈل جو تیار کیا گیا تھا اس کو آگے لانے کے لیے پوری قوم کا ترقی کا سفر ختم کردیا گیا اور چھین لیا گیا، خالی نواز شریف سے مینڈیٹ نہیں چھینا گیا، ہم پنجاب میں الیکشن جیت چکے تھے لیکن دھاندلی اور ڈنڈے کے زور پر تبدیل کیا گیا اور کس طرح ایک ماڈل متعارف کرایا گیا جس نے پاکستان کو تباہ و برباد کردیا۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس آکر مینار پاکستان پر عوام کو ملک کی معاشی بحالی کا منصوبہ خود بتائیں گے۔

انہوں نے معاشی ترقی کے حوالے سے بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب تک سیاسی اور معاشی استحکام نہیں ہو گا، قوم میں یکجہتی نہیں ہو گی تو قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ 18 ماہ میں مخلوط حکومت نے مل کر دوست ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے دن رات محنت کی اور اس میں بڑی حد تک کامیابی حاصل ہوئی، جب میاں صاحب آئیں گے تو اس میں مزید بہتری آئے گی، ان کے سعودی عرب، چین، ترکیہ، قطر سے دیرینہ تعلقات ہیں اور یہ دوستی قرضے لینے کے لیے نہیں بلکہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہو گی۔

شہباز شریف نے کہا کہ احتساب سب کے لیے ہونا چاہیے، آج تک احتساب کی لاٹھی صرف سیاستدانوں پر چلی ہے اور یہ تاریخ کا سیاہ باب ہے، احتساب وہ ہے جو سامنے صاف نظر آتا ہو اور لوگ اس کو تسلیم کرتے ہوئے نظر آتے ہوں ورنہ اپوزیشن کے ساتھ ان چار سالوں میں کیا کچھ نہیں ہوا، 75 سالوں میں احتساب کا سب سے زیادہ نشانہ سیاستدان بنے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے حوالے سے ڈیل کے بارے میں بے بنیاد باتیں آپ کے سامنے ہیں، اگر ڈیلیں ہوتیں تو نواز شریف کو ڈھیل ملتی اور مشرف دور میں جلاوطنی اور جیلیں نہ کاٹنی پڑتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شفاف اور آزادانہ انتخابات ہونے چاہئیں اور جو بھی جیتے، اسے فیصلہ ماننا ہو گا، نواز شریف کو جھوٹے مقدمے میں تاحیات نااہل کیا گیا تاکہ ان کے ووٹرز گھر بیٹھ جائیں لیکن ایسا نہ ہوا اور ہمارے لوگ جوق در جوق نکلے البتہ اس سے پہلے ریگ مال پھیرا جا چکا تھا، ہمارے لوگوں کو دھمکیاں دے کر زبردستی توڑا گیا، ان کو مسلم لیگ (ن) چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور ان کو آزاد گائے کا نشانہ دلوایا گیا، یہ سب کیا تھا، جیب کا نشان دلوایا گیا، یہ سب الیکشن سے قبل کی جانے والی دھاندلی تھی، میرا جواب یہی ہے کہ سب کو آزادانہ اور شفاف انداز میں مساوی مواقع ملنے چاہئیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024