• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

غزہ کی 75 سالہ تاریخ پر نظر

ہزاروں فلسطینیوں نے گھروں سے بے دخل ہونے کے بعد غزہ میں پناہ لی تھی جہاں حملہ آور مصری فوج نے 40 کلومیٹر طویل ایک تنگ ساحلی پٹی پر قبضہ کر لیا تھا
شائع October 20, 2023

اس وقت غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہی پھیلی ہوئی ہے جہاں 3 ہزار سے زائد شہری جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوگئے ہیں، لیکن غزہ کہاں ہے، وہاں کب، کیا ہوا، اس پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

غزہ ایک ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ قدیم تجارتی اور سمندری راستوں پر واقع ہے جو کہ 1917 تک سلطنت عثمانیہ کے زیر کنٹرول رہا اور گزشتہ صدی میں برطانیہ سے مصری فوجی حکمرانی میں منتقل ہوا اور اب یہ ایک زیر قبضہ علاقہ ہے جہاں 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی آباد ہیں۔

غزہ کی حالیہ تاریخ کے چند اہم مراحل مندرجہ ذیل ہیں۔

1948 میں برطانوی حکومت کا خاتمہ

1948 میں جنگ کے دوران اسرائیلی فوجی پوزیشن میں—فوٹو: رائٹرز
1948 میں جنگ کے دوران اسرائیلی فوجی پوزیشن میں—فوٹو: رائٹرز

جیسے ہی 1940 کی دہائی کے آخر میں فلسطین میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کا خاتمہ ہوا تو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تنازعات میں شدت آئی جس کا اختتام مئی 1948 میں اسرائیل کی نئی بننے والی ریاست اور اس کے عرب پڑوسیوں کے درمیان جنگ سے ہوا۔

ہزاروں فلسطینیوں نے گھروں سے بے دخل ہونے کے بعد غزہ میں پناہ لی تھی جہاں حملہ آور مصری فوج نے 40 کلومیٹر طویل ایک تنگ ساحلی پٹی پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد پناہ گزینوں کی آمد سے غزہ کی آبادی تین گنا بڑھ کر2 لاکھ تک پہنچ گئی۔

1950 اور 1960: مصری فوجی حکمرانی

1948 کی جنگ کے دوران عرب خاندان گھروں کو چھوڑ کر گئے —فوٹو: رائٹرز
1948 کی جنگ کے دوران عرب خاندان گھروں کو چھوڑ کر گئے —فوٹو: رائٹرز

مصر نے دو دہائیوں تک غزہ کی پٹی کو فوجی گورنر کے ماتحت رکھا، جس سے فلسطینیوں کو مصر میں کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ملی جس کے بعد مسلح فلسطینی ’فدائین‘ نے اسرائیل پر حملے کیے اور یوں جوابی کارروائی ہوتی رہی۔

بعدازاں اقوام متحدہ نے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی قائم کی جو کہ آج غزہ میں 16 لاکھ رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ ساتھ اردن، لبنان، شام اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے لیے خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

1967 کی جنگ اور اسرائیلی فوجی قبضہ

اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا تھا اور اس سال کی اسرائیلی مردم شماری کے مطابق غزہ کی آبادی 3 لاکھ 94 ہزار تھی جن میں سے کم از کم 60 فیصد مہاجرین تھے۔

1967 میں جنگ کا ایک منظر جہاں تباہی مچی ہوئی ہے—فوٹو: رائٹرز
1967 میں جنگ کا ایک منظر جہاں تباہی مچی ہوئی ہے—فوٹو: رائٹرز

مصر کے جانے کے بعد غزہ کے بہت سے مزدوروں نے اسرائیل میں زراعت، تعمیرات اور سروسز کی صنعتوں میں ملازمتیں شروع کیں، جہاں وہ اس وقت آسانی سے رسائی حاصل کر سکتے تھے۔

اسرائیلی فوجی علاقے کا انتظام سنبھالنے اور ان بستیوں کی حفاظت کے لیے وہاں رہے جو کہ اسرائیل نے آگے جاکر تعمیر کیں اور یہ پیش رفت فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی ناراضی کا ذریعہ بنی۔

1987: فلسطینی بغاوت کا آغاز، حماس کی تشکیل

1986 میں اسرائیلی فوجیوں نے فسلطینیوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے جبکہ اسکول سے بچیاں اپنے گھروں کو  واپس جا رہی ہیں—فوٹو: رائٹرز
1986 میں اسرائیلی فوجیوں نے فسلطینیوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے جبکہ اسکول سے بچیاں اپنے گھروں کو واپس جا رہی ہیں—فوٹو: رائٹرز

1967 کی جنگ کے 20 سال بعد پہلی بغاوت ہوئی جو کہ دسمبر 1987 میں ایک ٹریفک حادثے کے بعد شروع ہوئی جہاں ایک اسرائیلی ٹرک غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں فلسطینی کارکنوں کو لے جانے والی گاڑی سے ٹکرا گیا تھا جس میں چار افراد جاں بحق ہوئے تھے اور یوں علاقے میں پتھراؤ کے بعد احتجاج، اور شٹر ڈاؤن ہڑتالیں ہونا شروع ہوگئیں۔

کشیدہ صورتحال کے پیش نظر مسلم ممالک نے غزہ میں ایک مسلح فلسطینی شاخ حماس تشکیل دی تھی، حماس یاسر عرفات کی سیکیولر الفتح پارٹی کی حریف بن گئی جس نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی قیادت کی تھی۔

1993: اوسلو معاہدہ اور فلسطینی نیم خود مختاری

اسرائیل اور فلسطینیوں نے 1993 میں ایک تاریخی امن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا، عبوری معاہدے کے تحت فلسطینیوں کو پہلے غزہ اور مغربی کنارے میں محدود کنٹرول دیا گیا تھا اور یاسر عرفات کئی دہائیوں کی جلاوطنی کے بعد غزہ واپس آئے تھے۔

1993 میں وائٹ ہاؤس میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہوئے—فوٹو: رائٹرز
1993 میں وائٹ ہاؤس میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہوئے—فوٹو: رائٹرز

اوسلو معاہدے سے فلسطینی اتھارٹی کو کچھ خود مختاری دی اور 5 سال بعد ریاست کا تصور کیا گیا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔

اسرائیل نے فلسطینیوں پر سیکیورٹی معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا جبکہ فلسطینی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے سے ناراض تھے۔

بعدازاں حماس نے وہاں حملے کیے جس کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ سے فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر مزید پابندیاں عائد کر دی۔

حماس نے یاسر عرفات کے اندرونی حلقوں کی طرف سے بدعنوانی، اقربا پروری اور معاشی بدانتظامی پر بڑھتی ہوئی فلسطینی تنقید کو بھی ہوا دی۔

2000: دوسری فلسطینی انتفادہ

2000 میں دوسری فلسطینی انتفادہ کے پھوٹ پڑنے سے اسرائیل اور فلسطین کے تعلقات مکمل طور پر کشیدہ ہوگئے جس سے فلسطینیوں کی طرف سے بم دھماکوں، فائرنگ کے حملوں، اور اسرائیلی فضائی حملوں، گھروں کو مسمار کرنے، نوگو زونز اور کرفیو بڑھا گیا۔

سال 2000 میں فلسطینی پولیس کا اسرائیلی فوج سے فائرنگ کا تبادلہ—فوٹو: رائٹرز
سال 2000 میں فلسطینی پولیس کا اسرائیلی فوج سے فائرنگ کا تبادلہ—فوٹو: رائٹرز

ان میں سے ایک حادثہ غزہ کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ تھا جو کہ 1998 میں کھولا گیا تھا اور اسرائیل نے اسے ایک سیکورٹی خطرہ سمجھا اور 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر حملوں کے چند ماہ بعد اس کا ریڈار اینٹینا اور رن وے تباہ کر دیا۔

غزہ کی پٹی میں حملوں سے تباہ شدہ ایئر پورٹ—فوٹو: رائٹرز
غزہ کی پٹی میں حملوں سے تباہ شدہ ایئر پورٹ—فوٹو: رائٹرز

مسائل میں سے ایک اہم معاملہ غزہ کی ماہی گیری کی صنعت تھی جہاں اسرائیل کی طرف سے غزہ کے ماہی گیروں کے علاقے محدود کر دیے گئے تھے اور پابندی عائد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ہتھیاروں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے کشتیوں کو روکنا ضروری تھا۔

سال 2001 میں ایک بزرگ شہری تباہ شدہ ملبے سے گزرتے ہوئے—فوٹو: رائٹرز
سال 2001 میں ایک بزرگ شہری تباہ شدہ ملبے سے گزرتے ہوئے—فوٹو: رائٹرز

2005: اسرائیل کی طرف سے اپنی بستیاں خالی کردی گئیں

اگست 2005 میں اسرائیل نے اپنے تمام فوجیوں اور آباد کاروں کو غزہ سے نکال دیا تھا۔

 —فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

فلسطینیوں نے عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا اور اسرائیلی بستیوں کو ہٹانے سے غزہ کے اندر نقل و حرکت میں اضافہ ہوا۔

لیکن اس انخلا نے آباد کاری کے کارخانے، گرین ہاؤسز اور ورکشاپس کو بھی ختم کردیا تھا جن میں کئی غزہ کے باشندے کام کرتے تھے۔

2006: حماس کے تحت تنہائی

2006 میں حماس نے فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی اور پھر غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

زیادہ تر بین الاقوامی برادری نے حماس کے زیر کنٹرول علاقوں میں فلسطینیوں کی امداد روک دی تھی کیونکہ وہ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے تھے۔

اسرائیل نے ہزاروں فلسطینی مزدوروں کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا جس سے روزگار اور آمدنی کا ایک خاص ذریعہ منقطع ہو گیا تھا۔

اسرائیلی فضائی حملوں سے غزہ کا واحد برقی پاور پلانٹ تباہ کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بلیک آؤٹ ہو گیا تھا جبکہ اسرائیل اور مصر نے سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے غزہ کی سرحد سے لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت پر بھی سخت پابندی عائد کی تھی۔

حماس نے غزہ کی معیشت کو اسرائیل سے الگ کرکے مشرق میں دوبارہ مرکوز کرنے کا منصوبہ بنایا۔

حماس کو خطرہ سمجھتے ہوئے مصر کے فوجی حمایت یافتہ رہنما عبدالفتاح السیسی نے غزہ کے ساتھ سرحد بند کر دی تھی اور بیشتر سرنگوں کو اڑا دیا تھا جس سے ایک بار پھر غزہ کی معیشت شدید متاثر ہوئی۔

تنازعات

اسرائیل اور فلسطینی کے درمیان تصادم، حملے اور جوابی کارروائیوں کی وجہ سے غزہ کی معیشت کو بار بار نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

2023 سے پہلے ایسی بدترین لڑائی 2014 میں ہوئی تھی جب حماس اور دیگر گروپس نے اسرائیل کے شہروں پر راکٹ داغے تھے جبکہ اسرائیل نے فضائی حملے اور توپ خانے سے بمباری کی تھی جس سے غزہ کے محلے تباہ ہوئے تھے اور 2100 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوگئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے جبکہ اسرائیل نے ہلاکتوں کی تعداد 67 فوجی اور 6 عام شہری بتائی تھی۔

2023 : حیرت انگیز حملہ

7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا اور قصبوں کو گھیرے میں لے لیا جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے اور متعدد کو قید کرکے غزہ لے جایا گیا تھا۔

جس کے بعد اسرائیل نے جوابی کارروائی میں غزہ کو فضائی کارروائی سے شدید نقصان پہنچایا اور 75 برس کے تنازع میں بدترین خونریزی کے دوران پورے علاقے مسمار کر دیے۔