نہیں چاہتے کہ کوئی جماعت سیاسی عمل سے باہر ہو، وزیر اعظم
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی جماعت سیاسی عمل سے باہر ہو، عدالت کسی پر کوئی پابندی لگاتی ہے تو وہ الگ بات ہے، ہمیں اس کو تسلیم کرنا ہوگا، یہ ماضی میں ہوا، اب بھی ہوگا اور مستقبل میں بھی ہوگا۔
اسلام آباد میں وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے دورہ چین سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ اہم دورے کے دوران چینی صدر سمیت دیگر رہنماؤں سے اہم اور انتہائی مثبت ملاقاتیں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ دورہ چینی صدر کی دعوت پر کیا گیا، دورے کے دوران کئی اہم پیش رفت ہوئیں، دورے کے دوران اہم تعمیری اور مفید بات چیت ہوئی، امید کرتے ہیں کہ اس کو جاری رکھتے ہوئے ہم اس کو منتخب حکومت کے حوالے کریں گے، جو بھی حکومت ہو، پاک ۔ چین تعلقات کا تسلسل سب سے اہم ہے، اس کی وجہ سے بے یقینی کا تاثر زائل ہوجاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بی آر آئی منصوبہ نہ صرف چین کے لیے، پورے خطے بلکہ خطے کے علاوہ دیگر ممالک کے لیے بھی مواقع پیدا کرتا ہے، ہمارے یہاں شاید بی آر آئی کی اہمیت وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے، یہ ممالک کو جوڑنے کے ساتھ نئی مواقع بھی پیدا کر رہا ہے، پاکستان کے لیے اس میں بہت زیادہ مواقع ہیں۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہم وہاں سے تین نعرے لے کر آئے ہیں، پلاننگ، کوآرڈینیشن، کوآپریشن کے سلوگن اس لیے لے کر آئے ہیں تاکہ اس پر ہماری توجہ مرکوز رہیں، جس سے درپیش چیلنجز پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی آر آئی کے دوسرے مرحلے میں چین کی پرائیویٹ کمپنیوں کی سنجیدہ شمولیت ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین نے کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہمارے روایتی مؤقف کی حمایت کی۔
انہوں نے کہا کہ دورے کے دوران ہماری روسی صدر، کینین صدر، سری لنکن صدر کے ساتھ کافی تعمیری اور نتیجہ خیز ملاقاتیں ہوئیں۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ روسی صدر، چینی رہنماؤن سمیت مختلف لیڈرشپ کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے تنازع کو اٹھایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کینین صدر کے ساتھ صحافی ارشد شریف کے قتل کیس کو اٹھایا اور کہا کہ کیس اپنے قانونی انجام کی جانب جانا چاہیے جب کہ ہمارے ملک میں اس کیس کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ کافی حد تک کارروائی مکمل ہوچکی ہے اور جو رہ گئی ہیں وہ بھی جلد مکمل ہوجائیں گی۔
مہنگائی اور مافیاز سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کوئی ملزم سامنے آئے تو ہم قانونی کارروائی کریں گے جب کہ سزائیں عدالت نے دینی ہیں۔
چینی سرمایہ کاری سے متعلق سوال پر نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارا ہدف سرمایہ کاری سے زیادہ ترقی کے حوالے سے اس کے نتائج ہیں، چین کی سرمایہ کاری سے ترقی و خوشحالی آئے گی۔
پاک ۔ روس تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ روسی صدر سے ملاقات دفتر خارجہ کا اقدام تھا، ماضی میں ہمارے تعلقات مختلف تھے، اب ہماری اور ان کی ضروریات مختلف ہیں، بہت اچھے ماحول میں ان کے ساتھ ملاقات ہوئی، فریقین کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ جن افغان شہریوں نے امریکا یا جن ممالک کے ساتھ کام کیا ہے، اگر وہ ممالک ان کو واپس لینے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان ان کا ٹرانزٹ روٹ بنتا ہے تو ہم ان کو سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
’بہت جلد ملک میں الیکشن کی گہما گہمی ہوگی‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صرف غیر قانونی طور پر مقیم شہریوں کے خلاف عالمی قوانین کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے، ہم غیر قانونی مقیم افراد کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، وہ ہمارے دشمن نہیں ہیں، ہم عرض کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک واپس جائیں اور اپنے ملک سے پاسپورٹ اور ویزا لے کر ہماری طرف آئیں تاکہ ہماری طرف کی آمد و رفت ریگولیٹ ہوجائے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ بہت جلد ملک میں الیکشن کی گہما گہمی ہوگی، جلد اس کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا، ہم ووٹ ڈالنے جائیں گے، اس کے نتائج آئیں گے اور پھر ہم آگے چلیں گے۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کے حوالے سے تحفظات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی مخصوص جماعت کو جو کہ بہت سارے لوگوں کی ترجیح ہے مجھے پتا ہے، ان کو جتوانے کے لیے ماحول بنایا جائے تو پھر لیول پلیئنگ فیلڈ ہوگا تو اس کا میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
’نواز شریف کے بائیومیٹرک میں حکومت نے کوئی غیر معمولی سہولت کاری نہیں کی‘
انہوں نے کہا کہ نواز شریف پیدائشی طور پر پاکستانی شہری ہیں، ان کے بائیو میٹرک ہونے میں حکومت نے کوئی غیر معمولی سہولت کاری نہیں کی، اس سے ان کو کوئی سیاسی فائدہ ہوا ہے جو اس معاملے کو ایسے بنا کر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں لیول پلیئنگ فیلڈ یاد ہے، وہ یاد ہے جب جنوبی پنجاب میں ایک محاذ بنا تھا، میں سیاسی بات کرنا نہیں چاہتا، ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے، ہماری پوری کوشش کے باوجود اس کو اپنے اطمینان کے مطابق نہیں پائیں گے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی سیاسی اکائی سیاسی عمل سے باہر ہو، عدالت کسی پر کوئی پابندی لگاتی ہے تو وہ الگ بات ہے، ہمیں اس کو تسلیم کرنا ہوگا، یہ ماضی میں ہوا، اب بھی ہوگا اور مستقبل میں بھی ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ اس میں کوئی تبدیلی کردے تو الگ بات ہے جیسا کہ باقی ممالک میں بھی تحریکیں چل رہی ہیں کہ عدالتی فیصلوں کے خلاف حتمی اتھارٹی پارلیمنٹ ہو، یہاں بھی ایسا ہوجائے، ہمیں کیا اعتراض ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہر جماعت کو اپنے بیانیے پر فوکس کرنا چاہیے، کوئی کہے کہ میں پارلیمنٹ کو آگ بھی لگاؤں گا اور جمہوریت کا چیمپئن بھی بنوں گا، ایسے ماحول میں سوشل آرڈر قائم نہیں رہتا، اس کو کوئی قانون پر احتجاج قرار نہیں دیتا، کوئی لندن میں ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کو آگ لگا کر بلا قانون کے سامنا کیے کہے کہ یہ ہمارا حق ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ اس کے اقدام پر کیا ردعمل دیا جاتا ہے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ نگران حکومت آگئی ہے تو آگ لگانے کے جیسے عمل کو ختم کیوں نہیں کر دیتے تو یہ نہیں ہوگا، لیول پلیئنگ فیلڈ دے دیں، آگ لگانے کا لائسنس دے دیں، یہ نہیں ہو سکتا، اگر یہ ہی حرکتیں جمعیت علمائے اسلام نے کی ہوتیں تو کیا لوگوں کی یہی رائے ہوتی جو کسی ایک جماعت سے متعلق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر لوگوں نے جے یو آئی کو مولوی، اسلام کو بنیاد پرست قرار دے دینا تھا اور ان پر بمباری کرنے کا مطالبہ بھی کردینا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب ایک ایسی جماعت جو کہ لبرل ہے، اگر یہ سب پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے کیا ہوتا، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ قانون میں کوئی سقم ہے تو اس کی اصلاح کرتے، قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، وہ یہ کام کرے۔