نیویارک ٹائمز نے غزہ میں الاہلی ہسپتال حملے پر اسرائیل کا مؤقف مسترد کر دیا
نیویارک ٹائمز نے 17 اکتوبر کو غزہ میں الاہلی ہسپتال پر حملے کے شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ ہسپتال میں دھماکا ایک فلسطینی گروپ کی جانب سے داغے گئے راکٹ کے سبب ہوا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہسپتال میں ہونے والے اس دھماکے میں 400 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے، جن میں زیادہ تر بچے شامل تھے۔
تاہم ماہرین اس متضاد دعوے کی تصدیق کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ ہسپتال میں دھماکا واقعی اسرائیل کی جانب سے فضائی حملے کے سبب ہوا تھا۔
اسرائیلی اور امریکی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ غلطی سے داغا گیا ایک فلسطینی راکٹ فضا میں خراب ہونے کے باعث واپس زمین پر آگرا تھا اور ہسپتال سے جا ٹکرایا تھا۔
نیویارک ٹائمز نے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کی، ماہرین نے انہیں بتایا کہ اس واقعے سے منسوب ایک بڑے پیمانے پر وائرل ویڈیو (جس میں الزام فلسطینی جہادی گروپ پر عائد کیا گیا تھا) سے یہ بالکل واضح نہیں ہوتا کہ دراصل ہوا کیا تھا۔
یہ ویڈیو ’الجزیرہ ٹیلی ویژن‘ کے کیمرے سے 17 اکتوبر کی رات کو لائیو اسٹریمنگ سے لی گئی تھی جس میں دیکھا گیا کہ ایک راکٹ غزہ میں آسمان پر اڑتے ہوئے فضا میں پھٹ جاتا ہے، چند لمحوں بعد ویڈیو میں زمین پر ایک اور دھماکا ہوتے بھی دیکھا گیا۔
اِس فوٹیج کو بڑے پیمانے پر بطور ثبوت پیش کیا جارہا تھا لیکن ’نیویارک ٹائمز ’ کے تفصیلی تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ویڈیو دراصل کچھ اور دکھاتی ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق غالب امکان یہی ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والا میزائل ہسپتال میں دھماکے کی وجہ نہیں بنا تھا، یہ درحقیقت یہ تقریباً 2 میل دور آسمان میں پھٹا تھا۔
اس نے مزید کہا کہ فوٹیج سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اسی دوران اسرائیل کی بمباری بھی جاری تھی اور اس سے تقریباً 2 منٹ بعد ویڈیو میں ہسپتال کے قریب 2 دھماکے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اسرائیل کے دعووں پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز نے یہ بھی کہا کہ حماس نے اسرائیل کے راکٹ کی کوئی باقیات یا کوئی باقاعدہ ثبوت پیش نہیں کیا جو اُس کے اِس دعوے کی تائید کرتا ہو کہ حملے کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔
نیویارک ٹائمز نے الجزیرہ کی فوٹیج کو ایک ہی وقت میں فلمائی گئی 5 دیگر ویڈیوز کے ساتھ ہم آہنگ کیا، جس میں ایک اسرائیلی ٹیلی ویژن اسٹیشن، چینل 12، اور تل ابیب میں ایک سی سی ٹی وی کیمرہ کی فوٹیج بھی شامل تھی۔
ان ویڈیوز کا مشاہدہ کرنے کے بعد نیویارک ٹائمز نے مؤقف اختیار کیا کہ ہسپتال میں ہونے والے مہلک دھماکے سے کچھ دیر قبل اسرائیلی قصبے نہل اوز کے قریب سے غزہ کی جانب پروجیکٹائل فائر کیا گیا تھا۔
ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ 17 اکتوبر کی شام 6 بجکر 59 منٹ پر الاہلی ہسپتال کے جنوب مغرب اور شمال مغرب میں 2 جگہوں سے فلسطینی راکٹ فائر کیے گئے۔
نیویارک ٹائمز نے کہا کہ فلسطینی راکٹوں کے شعلے رات کے وقت فضا میں ابھرتے دکھائی دیے تھے، آخری فلسطینی راکٹ اور ہسپتال میں ہونے والے دھماکے کے درمیان 25 سیکنڈ سے زیادہ کا فرق ہے۔
قبل ازیں ’بی بی سی نیوز‘ کی ایک رپورٹ میں بھی یہی نتائج برآمد ہوئے تھے، بی بی سی نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ آزادانہ طور پر اِس ریکارڈنگ کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے جسے اسرائیل نے اپنے دعوے کی حمایت کے لیے پیش کیا۔
بی بی سی اور نیویارک ٹائمز دونوں کو ماضی میں اپنی اسرائیل نواز رپورٹنگ کے لیے کافی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
نیشنل پبلک ریڈیو (این پی آر) کو دیے گئے انٹرویو میں بھی ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ویڈیو ثبوت اسرائیل کی جانب سے فضائی حملے کی حمایت نہیں کرتے لیکن اس سے اسرائیل کے دعوے کی بھی تائید نہیں ہوتی۔
این پی آر کے مطابق اسرائیل کا کہنا ہے کہ راکٹ مغرب سے آئے ہیں لیکن ایئر شاٹ نامی ایک این جی او کے مطابق ہسپتال پر جو کچھ بھی گرا وہ مغرب سے نہیں، مشرق سے آیا تھا۔