• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

تربوز فلسطینیوں کے لیے مزاحمت کیسے بنا؟

فلسطینیوں کا تربوز سے گہرا تعلق ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تربوز کے رنگ اور فلسطینی قومی پرچم کے رنگ ملتے جلتے ہیں۔
شائع October 26, 2023

گرمیوں میں سب سے زیادہ کھایا جانے والا پھل تربوز ویسے تو ہر کسی کی پسند ہوگا لیکن یہ پھل فلسطینیوں کے لیے مزاحمت کی علامت بھی ہے اور وہ اسے قومی شناخت بھی مانتے ہیں۔

فلسطینیوں کا تربوز سے گہرا تعلق ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تربوز کے رنگ اور فلسطینی قومی پرچم کے رنگ ملتے جلتے ہیں۔

فلسطین کا قومی پرچ، سرخ، سیاہ، ہرے اور سفید رنگوں پر مشتمل ہے جب کہ تربوز میں بھی یہی رنگ پائے جاتے ہیں۔

تربوز کا گودا سرخ ہوتا، اس میں سیاہ رنگ کے بیچ ہوتے ہیں جب کہ گودے اور کھال کے درمیان ہلکی سفیدی بھی موجود ہوتی ہے جب کہ یہ پھل باہر سے ہرا ہوتا ہے۔

یہ بھی ایک کمال ہے کہ تربوز کا پھل فلسطین میں زیادہ مقدار میں ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ بھی دنیا کے مختلف خطوں میں ہونے والے تربوز سے منفرد ہوتا ہے۔

فلسطینیوں کے لیے تربوز پہلی بار نصف صدی قبل 1967 میں مزاحمت اور شناخت کی علامت بنا تھا۔

اس وقت 1967 میں اسرائیل نے حملے کرکے مغربی کنارے اور بیت المقدس (یروشلم) شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کرلیا تھا اور اپنے قبضہ شدہ علاقوں میں فلسطینی پرچم کی نمائش کو جرم قرار دے دیا تھا۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے فلسطینی پرچم کی نمائش کو جرم قرار دیے جانے کے بعد 1967 میں ہی لوگوں نے تربوز کو پرچم کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا اور اسے اپنی شناخت کے لیے بھی استعمال کیا۔

اس کے بعد فلسطین میں آج تک مختلف اوقات اور جنگوں کے مواقع پر تربوز کو مزاحمت اور شناخت کی علامت کے طور پر استعمال کیا آتا رہا ہے۔

فلسطین میں 1993 میں بھی تربوز کو بطور پرچم اور شناخت زیادہ استعمال کیا گیا کیوں کہ اس وقت بھی اسرائیلی حکومت نے فلسطینی پرچم کی نمائش پر پابندی لگاتے ہوئے اسے جرم قرار دیا تھا۔

اسی طرح اسرائیل کی جانب فلسطین پر قبضے کیے جانے کے بعد اب تک متعدد مواقع پر فلسطینیوں نے منفرد احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے تربوز کو مزاحمت کے طور پر استعمال کیا ہے۔

سال 2007 میں فلسطینی آرٹسٹ خالد حورانی نے فلسطین کی کہانیوں پر مبنی ایک کتاب کے لیے تربوز کے پرچم کا آرٹ تیار کیا تھا، جس کے بعد تربوز کے آرٹ کو فلسطینی پرچم کے طور پر بنانے کے عمل میں تیزی دیکھی گئی اور آج نہ صرف فلسطین بلکہ دنیا کے متعدد ممالک کے آرٹسٹ تربوز کے آرٹ میں فلسطینی پرچم بناتے دکھائی دیتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں تربوز کو مزاحمت کے طور پر استعمال کرنے کے عمل میں اس وقت تیزی آئی جب 20 دن قبل اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر حملے کرنا شروع کیے گئے۔

چند دن قبل فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں متعدد ایمبولینسز اور ٹیکسیز پر تربوز کی بڑی بڑی تصاویر دیکھی گئیں اور ان تصاویر کے ساتھ لکھا گیا کہ ’یہ فلسطینی پرچم نہیں ہے‘۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ دنیا بھر میں فلسطینی رومال، زیتون اور دیگر چیزوں کو مزاحمت اور فلسطین کی شناخت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔