مخالف الیکشن میں آئیں، ان کا خیر مقدم کرتے ہیں، آصف زرداری
سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ مخالف الیکشن میں آئیں، ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
گھوٹکی میں پیپلز پارٹی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کی بات چیت میں دوستوں اور دشمنوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ گزشتہ حکومت کے خلاف، عمران خان کے خلاف تحریک اس لیے نہیں چلائی کہ ہمیں اقتدار چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں عوامی ترقی اور ملک کی ترقی ضرورت ہے، ان سے ملک کی ترقی نہیں ہو رہی تھی، میں 8 سال سے دیکھ رہا تھا کہ ان سے کچھ نہیں ہو رہا تھا، انہیں کام کرنا آتا ہے، نہ کروانا آتا ہے، 18ویں ترمیم کے بعد ہمارے پاس کچھ گنجائش ہے جس کے تحت حاصل اختیارات اور وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے ترقیاتی کام کروائیں۔
سابق صدر نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ عوام کی نوکری کی ہے، ذوالفقار علی بھٹو کی قبر پر لکھا ہے کہ یہاں عوام کا نوکر دفن ہے، عوامی نوکری میں ہی ہماری جنت و دوزخ ہے، ہمارے روزے، سجدے کام نہیں آنے، اگر کام آنی ہے تو عوامی خدمت ہی کام آنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری سوچ اتنی دور کی ہے کہ ہم ہر چیز کر سکتے ہیں، ہم صرف سمندر کو صاف کرکے ہی 5، 6 ارب روپے کما کر دے سکتے ہیں، سمندر میں گر کر ضائع ہونے والی بچت کو دیگر علاقوں کو فراہم کر سکتے ہیں، اس سے کھاد بھی بنانی ہے جو کہ بہت مہنگی ہوگئی ہے۔
آصف علی زرداری نے کہا کہ صرف عملی آدمی ہی جس طرح میں سوچتا ہوں سوچ سکتا ہے، اگر میں نے اپنے صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کو واپس کیے تو اس کی بھی ایک سوچ ہے، اگر میں ایسا نہ کرتا تو کوئی بھی آکر آمر بن سکتا تھا۔
’آج کی صدی میں مارشل لا لگانا آسان نہیں ہے‘
انہوں نے کہا کہ اب آمر بننے کے لیے اس کو مارشل لا لگانا پڑے گا، آج کی صدی میں مارشل لا لگانا آسان نہیں ہے، اس وقت سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، آپ کے فون دنیا سے چل رہے ہیں، ہر جگہ سے چل رہے ہیں، اب بہت انفارمیٹو ٹیکنالوجی آچکی ہے، اب اس قسم کا اقدام کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو ہمارے مخالف الیکشن میں آرہے ہیں، وہ آئیں، کھڑے ہوں، ان کا خیر مقدم کرتے ہیں، جمہوریت ہوگی، مقابلے کی فضا ہوگی تو ہی بہترین نتیجہ سامنے آئے گا، ہم کسی کو منع نہیں کرتے، سب کو کہتے ہیں کہ اپنی سیاست کریں، ہماری اپنی سیاست اور فلسفہ ہے۔
سابق صدر نے کہا کہ کسی کی کوئی بھی سیاست ہو، ہماری سیاست عوام کی سیاست ہے، ہم دھرتی کی قیمت جانتے ہیں، ہمیں پتا ہے پڑوسی ملک سمیت دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، جب لیبیا میں، شام میں جنگ ہوئی تو ہم نے اس میں حصہ نہیں لیا، لوگوں نے کہا کہ آپ تاریخ کے مخالف جا رہے ہیں، میں نے کہا کہ ہمارے پڑوس میں افغانستان ہے، ہم نے چالیس سال اس کی قیمت ادا کی ہے، ہمیں تارکین وطن کی قیمت پتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بہت بڑی تعداد میں افغان بھائی آئے ہوئے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ وہ واپس جائیں، مگر وہ واپس کیسے جائیں، وہاں ہے کیا کہ وہ بچارے وہ وہاں جائیں، بڑے مسئلے ہیں، یہ مسئلے اس وقت ہوتے ہیں جب رہنماؤں کی سوچ کم ہوتی ہے۔
سابق صدر نے کہا کہ ہمیں آگے کا سوچنا ہے، ہم نے اپنے بچوں کے بچوں کا سوچنا ہے، ان کو سمجھنا ہے، ان کی ضروریات کو سمجھ کر وقت سے پہلے اس کا انتظام کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دفعہ بھی جب ہم حکومت میں تھے تو ہم نے بڑی کوشش کی مگر دوستوں نے ہماری بات نہیں مانی اور پاکستان کو 10، 20 ارب کا نقصان ہوا جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے، پاکستان اس وقت معاشی طور پر کمزور ہو رہا ہے جس کے ہم اس وقت متحمل نہیں ہو سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ یہ نقصان سے بچنے اور فائدے کی بات ہماری طرف سے کی جاتی ہے تو ان کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ شاید اس میں ہمارا کوئی فائدہ ہے، اس میں ہمارا نہیں ملک کا فائدہ ہے، ہم نے جب بھی بات کی، ملک کے فائدے کی بات کی ہے، ہماری یاری اس دھرتی سے ہے جس میں ہم نے مرنا ہے، پاکستان کو بنایا سندھ نے ہے، اس کو بچانا بھی ہم نے ہے۔