امریکی کانگریس اراکین کا بائیڈن انتظامیہ کو خط، پاکستان کی امداد روکنے کا مطالبہ
امریکی کانگریس کے 11 ارکان نے امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو لکھے گئے خط میں بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے مستقبل میں امریکی امداد اس وقت تک روک دیں جب تک ملک میں آئینی نظام بحال نہیں ہو جاتا اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں ہوجاتے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی قانون سازوں نے لیہی قوانین اور فارن اسسٹنس ایکٹ کے سیکشن 502 (بی) کے تحت محکمہ خارجہ سے قانونی طور پر اس بات کا تعین کرنے کی درخواست کی کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ آیا امریکا کی جانب سے سیکیورٹی امداد نے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سہولت فراہم کی۔
انہوں نے لکھا کہ ہم مزید درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کو سیکیورٹی امداد کی فراہمی اس وقت تک روک دی جائے جب تک کہ پاکستان فیصلہ کن طور پر آئینی نظام کی بحالی کی طرف نہیں بڑھتا، جس کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہو جس میں تمام جماعتیں آزادانہ طور پر حصہ لینے کی اہل ہوں۔
خط میں پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا بھی تذکرہ کیا گیا، خط میں انٹونی بلنکن کو متنبہ کیا گیا کہ مجوزہ تبدیلیوں کو چھوٹے مذہبی گروہوں اور اقلیتوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
قانون سازوں نے لکھا کہ ہم فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2023 کی منظوری کے حوالے سے انتہائی فکر مند ہیں جو توہین رسالت کے موجودہ قانون کو سخت کرے گا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اس بل پر صدر کے دستخط ہونا باقی ہیں، بل کی منظوری کے لیے بہت سے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے باقاعدہ پارلیمانی طریقہ کار پر عملدرآمد کے بار بار مطالبات کے باوجود یہ بل جلد بازی میں منظور کر لیا گیا۔
قانون سازوں نے متنبہ کیا کہ پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم بدستور جاری ہے اور اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو ہم مستقبل میں مذہب اور عقیدے کی آزادی پر پابندیوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔
یہ اقدام کانگریس کی خاتون رکن الہان عمر کی جانب سے اٹھایا گیا، جو امریکی کانگریس میں مسلم کاز کی چیمپئن ہیں، دیگر دستخط کنندگان میں فرینک پیلون جونیئر، جوکین کاسترو، سمر لی، ٹیڈ ڈبلیو لیو، ڈینا ٹائٹس، لائیڈ ڈوگیٹ اور کوری بش شامل ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر کانگریس کے ترقی پسند گروپ کے ارکان ہیں، واشنگٹن میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے میں کانگریس نے کلیدی کردار ادا کیا اور غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبے کے لیے منعقدہ احتجاجی جلسوں اور ریلیوں میں بھی شرکت کی۔
پاکستان کے بارے میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں خاص طور پر توہین مذہب کے الزامات کی بنیاد پر قانونی چارہ جوئی یا تشدد کا شکار ہیں اور توہین مذہب کے مقدمات مذہبی آزادی کے لیے کافی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں پچھلی حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے اراکین کے خلاف توہین مذہب کے قوانین کو ہتھیار بنایا۔
امریکی قانون سازوں نے ایک دیرینہ اتحادی کے طور پر پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے آزادی اظہار اور مذہبی پابندیوں، جبری گمشدگیوں، فوجی عدالتوں اور سیاسی مخالفین اور انسانی حقوق کے محافظوں کو ہراساں اور گرفتار کرنے جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
امریکی قانون سازوں نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف مقدمات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ انہیں مبینہ طور پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خط میں انسانی حقوق کی وکیل ایمان مزاری کا بھی تذکرہ کیا گیا، جنہیں جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک ریلی میں تقریر کرنے کے بعد بغیر وارنٹ گرفتاری کے رات 3 بجے اُن کے گھر سے اٹھا لیا گیا تھا۔
خط میں اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے پر زور دیا گیا کہ وہ ایمان مزاری، خدیجہ شاہ اور عمران خان کے کیسز سمیت انسانی حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں کے کیسز کی سماعتوں اور دیگر قانونی کارروائیوں کے لیے مبصرین بھیجیں۔
امریکی قانون سازوں نے لکھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا مثبت تبدیلی کے لیے تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہمارا تعاون پاکستان کے عوام کے لیے منصفانہ مستقبل کے قیام میں معاونت کر سکتا ہے۔
انہوں نے پاکستان میں انسانی حقوق، جمہوریت اور استحکام کے فروغ کے لیے سیکریٹری انٹونی بلنکن کے ساتھ کام کرنے کی پیشکش بھی کی۔
تاہم یہ تاحال واضح نہیں ہے کہ امریکی حکومت، خاص طور پر محکمہ خارجہ کی جانب سے ان تحفظات پر کیا ردعمل دیا جائے گا اور اس سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا۔
واشنگٹن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ جغرافیائی سیاسی اتحاد اور عالمی سطح پر جمہوری اقدار کے فروغ کے درمیان توازن کو واضح کرتی ہے، امریکی محکمہ خارجہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے واضح طور پر محتاط رہا ہے۔
یہ معاملہ محکمہ خارجہ کی روزانہ کی بریفنگ میں باقاعدگی سے اٹھایا جاتا رہا ہے، جس میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ہمیشہ احتیاطاً ایسے بیانات دینے سے گریز کیا ہے جسے پاکستان میں حکومت یا اپوزیشن کی حمایت کے اظہار سے تعبیر کیا جا سکے۔