اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور کا حصہ ہونے کا امکان
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے 18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلیاں کرنے کا عندیہ دیا ہے جس میں صوبوں کے درمیان محصولات کی تقسیم کا طریقہ کار از سر نو تشکیل دینے پر نمایاں توجہ ہوگی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی کو کئی تجاویز موصول ہوئی ہیں، جن میں 18ویں ترمیم کو یکسر تبدیل کرنے سے لے کر صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کے طریقہ کار کو تبدیل کرنا شامل ہے۔
مسلم لیگ (ن) اِس آئینی شق میں ترمیم کرنے اور اسے اپنے منشور کا حصہ بنانے کے وعدے کے ساتھ انتخابی مہم میں اترنے کے لیے تیار ہے، پارٹی کا منشور اگلے ماہ منظر عام پر لایا جائے گا۔
2010 میں پیپلزپارٹی کی زیر قیادت حکومت کے دوران منظور ہونے والی 18ویں ترمیم میں صحت، خواتین کی ترقی، سماجی بہبود اور مقامی حکومت سمیت عوامی خدمات کے اہم شعبوں میں اختیارات صوبوں کو منتقل کر دیے گئے تھے۔
ترمیم کے تحت وفاق کے وسائل میں صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد مقرر کیا گیا تھا جبکہ باقی ماندہ وسائل وفاقی حکومت قرضوں کی ادائیگی، ترقیاتی پروگراموں اور دفاع وغیرہ پر خرچ کرتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے کہا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں بہت شدت سے یہ احساس، بلکہ یقین پایا جاتا ہے کہ صوبوں کے درمیان (آئین کی 18ویں ترمیم کے تحت) مالی وسائل کی تقسیم کے موجودہ انتظام نے مالی مسائل پیدا کیے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے حال ہی میں 8 فروری کے انتخابات کے لیے منشور کا مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی ہے، پارٹی قیادت اپنے اراکین کی جانب سے موصول ہونے والی رائے اور تجاویز کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ سمجھا جا رہا ہے کہ پارٹی 18ویں ترمیم کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کرے گی لیکن یہ اس کی نمایاں خصوصیات پر توجہ دے گی اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کے طریقہ کار کو نئی شکل دے گی، ممکنہ طور پر آپ اسے مسلم لیگ (ن) کے منشور کے حصے کے طور پر دیکھیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما نے ’ڈان‘ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ایسی کئی تجاویز زیر غور ہیں، قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کی ری اسٹرکچرنگ کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ صوبوں کو منتقل کیے جانے والے وسائل نچلی سطح، یعنی شہروں میں بلدیاتی حکومت تک پہنچیں۔
مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی اور پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب سے اس معاملے پر تبصرے کے لیے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
دریں اثنا پارٹی کے ایک اور رہنما نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کی قیادتوں کے درمیان انتخابی اتحاد بنانے کے لیے حالیہ ملاقاتوں نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو مزید حوصلہ دیا ہے کہ ریاستی امور ہموار انداز میں چلانے کے لیے گورننس کے ہر کلیدی شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اصلاحات منشور میں تجویز کی جائیں گی جن کے ذریعے پارٹی کا مقصد بدعنوانی پر قابو پانا اور نچلی سطح پر لوگوں تک بہتر شہری سہولیات پہنچانا ہے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ صوبائی خود مختاری کے نام پر ہم نے دیکھا ہے کہ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت اپنا حصہ ملنے کے بعد بری الذمہ کردیا جاتا ہے جبکہ قرضوں اور سود کی ادائیگی، دفاعی بجٹ کے تحت رقم کی فراہمی، خسارے سے دوچار قومی اداروں کے معاملات، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی ادائیگی اور بہت سے دیگر مالیاتی معاملات صرف وفاق کی ذمہ داری بن جاتے ہیں۔
انہوں نے کراچی میں ایم کیو ایم (پاکستان)کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق کی میڈیا سے گفتگو کا حوالہ دیا، جہاں انہوں نے واضح طور پر بہتر عدالتی انتظام کے لیے آئینی اصلاحات اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کا اشارہ دیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے خدشات
پیپلز پارٹی 18ویں ترمیم کا کریڈٹ لیتی ہے اور اسے ایک کارنامہ قرار دیتی ہے، اس نے 18ویں ترمیم میں تجویز کردہ کسی بھی تبدیلی کی سختی سے مخالفت کی ہے۔
پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ ترمیم ختم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔
اگر 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کی پرانی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آجائے تو یہ خدشات حقیقت بن سکتے ہیں، تاہم پیپلزپارٹی نے پوری طاقت کے ساتھ ایسے اقدام کی مزاحمت کرنے کا عزم کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے مجوزہ منصوبوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پیپلزپارٹی نے کہا کہ نواز شریف اس طرح کی حرکتوں سے صرف اپنا سیاسی مستقبل تاریک کریں گے۔
یاد رہے کہ 18ویں ترمیم میں تبدیلی کے مطالبات گزشتہ چند برسوں سے اقتدار کی راہداریوں میں گونج رہے ہیں۔
2018 سے 2022 تک سابق وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں نے اپنے دور حکومت میں وسائل کی تقسیم کے طریقہ کار میں بے ضابطگیوں کو دور کرنے کی خواہش کا بارہا اظہار کیا۔
2020 میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ این ایف سی کے ساتھ ساتھ اِس 10 سال پرانی ترمیم کا بھی ’جائزہ‘ لینے کی ضرورت ہے، اس ترمیم کے بعد کئی انتظامی مسائل پیدا ہوئے ہیں اور وفاق انہیں حل کرنے میں بے بس ہے۔