سپریم کورٹ کے جج نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج کردی
سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایات پر ہونے والی کارروائی کو منگل (آج) تک ملتوی کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینئر وکیل خواجہ حارث نے جج سید مظاہر علی اکبر نقوی کی نمائندگی کی اور جوڈیشل کونسل کے سامنے ابتدائی دلائل پیش کیے جو منگل (آج) کو بھی جاری رہیں گے، جہاں لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کے افسران بھی موجود تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف دائر شکایت خارج کردی، جو خود بھی کونسل کے رکن ہیں، 27 اکتوبر کو ہونے والی آخری سماعت کے دوران شکایت کنندہ آمنہ ملک کو شکایت سے متعلق ثبوت پیش کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان شامل ہیں، پیر کو سپریم جوڈیشل کونسل نے شکایت کنندہ آمنہ ملک کے بیانات ریکارڈ کیے، ان سے سوالات بھی کیے گئے اور ان کی شکایت کو بھی دیکھا گیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس طارق مسعود کو نوٹس جاری کیے اور ہدایت دی کہ اگر وہ اپنے خلاف لگائے الزام کو مسترد کرنا چاہتے ہیں تو دوران سماعت حاضر رہیں، شکایت کنندہ سے سوال کیے گئے مگر وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکیں بلکہ انہوں نے معلومات چھپائی، آمنہ ملک نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی جانب سے دیکھے گئے دستاویز کی روشنی میں ان کی شکایت کا جواز نہیں بنتا۔
جسٹس طارق مسعود کا یہ ماننا ہے کہ انہیں بدنام کیا گیا اور کیونکہ شکایت کنندہ نے خود اعتراف کیا کہ یہ حقیقت میں غلط تھا اس لیے انہوں نے یہ درخواست کی کہ آمنہ ملک اور ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے خلاف کارروائی کی جائے، جنہوں نے ان کی شکایت کو ٹوئٹ کیا تھا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے مطابق اس شکایت کا کوئی جواز نہیں رہتا چونکہ شکایت کنندہ نے خود تسلیم کیا کہ ان کی شکایت درج نہیں کی جانی چاہیے تھی کیونکہ الزامات درست نہیں تھے، چنانچہ سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ تبصرہ کیا کہ شکایت جسٹس طارق مسعود کو بدنام کرنے کے لیے بدنیتی پر درج کی گئی، البتہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ شکایت کنندہ کے خلاف جھوٹی شکایت دائر کرنے پر کارروائی کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔
جسٹس طارق مسعود کی درخواست کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل پروسیجر آف انکوائری کی شق 13 کےمطابق کونسل کی سماعت ان کیمرا ہونی چاہیے۔
البتہ پروسیجر کی شق 13 (3) یہ کہتی ہے کہ اگر کونسل کی ہدایت ہو تو اسے رپورٹ کیا جاسکتا ہے، جسٹس طارق مسعود کی درخواست پر کارروائی بذریعہ سیکریٹری کونسل کو رپورٹ کی جائے اور سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈالی جائے۔
اس حقیقت کے پیش نظر کے شکایت کو ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے ٹوئٹ کیا تھا، سپریم جوڈیشل کونسل نے ایڈووکیٹ کو نوٹس جاری کیے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر جواب جمع کروائیں کہ کیا انہوں نے شکایت ٹوئٹ کی اور اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو ان کے خلاف اس عمل پر قانونی کارروائی کیوں نہیں ہونی چاہیے۔
دریں اثنا، سید مظاہر علی نقوی نے 28 اکتوبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے ان کو جاری ہونے والے نوٹس کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کردیا کہ سماعت کا آغاز جج کے بغیر اور کسی قانونی اختیار کے بغیر کیا گیا۔
نامور وکلا مخدوم علی خان، خواجہ حارث احمد، سردار لطیف کھوسہ اور بیرسٹر سید علی ظفر کے پینل کے ذریعے بھیجی گئی پٹیشن میں یہ کہا گیا کہ جج 16 فروری 2023 سے بدنیتی پر مبنی مہم کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ ان پر کھلے عام جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ان کا میڈیا ٹرائل کیا گیا اور یہ مہم بدنیتی پر مبنی ہے اور شکایات عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔
درخواست کے مطابق ریکارڈ سے یہ بات عیاں ہے کہ جس طریقے سے اس کارروائی کا آغاز ہوا اور سپریم جوڈیشل کونسل نے28 اکتوبر کو جو نوٹس جاری کیا وہ درخواست گزار کو آئین کی جانب سے دیے گئے بنیادی حق کے برعکس اور اس کی خلاف ورزی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ یہ نوٹس سپریم کورٹ کے فیصلوں سے بھی براہ راست متصادم ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے ان کی رضامندی کے بغیر پریس ریلیز جاری کرنے سے نہ صرف ان کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ ان کا میڈیا ٹرائل بھی کیا گیا۔