فلسطین کو سپورٹ کرنے پر کام کے کئی مواقع ضائع ہوئے جس پر کوئی افسوس نہیں، دنانیر مبین
سوشل میڈیا انفلوئنسر اور اداکارہ دنانیر مبین نے انکشاف کیا ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے کی وجہ سے کئی لوگوں نے انہیں کام دینے سے انکار کردیا یا کام کے مواقع ضائع ہوئے لیکن انہیں اس پر کوئی افسوس نہیں ہے۔
غزہ میں جاری ’نسل کشی‘ پر دنیا بھر کی عالمی شخصیات فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے سیز فائر کا مطالبہ کر رہی ہیں جن میں ہولی وڈ اداکارہ بیلا اور جی جی حدید کے علاوہ سوسن سارینڈن اور دیگر شامل ہیں۔
ہولی وڈ کے کچھ اداکاروں کو فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے پر انہیں یہودی برینڈز یا ٹی وی پروڈکشن سے نکالا گیا یا اداکاروں کو کئی پروجیکٹس سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔
اسی دوران پاکستانی اداکاروں کی جانب سے بھی فلسطین کے حق میں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے جن میں اشنا شاہ، عثمان خالد بٹ، ماہرہ خان، صبا قمر، سجل علی، عاطف اسلم اور دیگر شامل ہیں۔
تاہم ’پارری گرل‘ سے مشہور ہونے والی سوشل میڈیا اسٹار اور اداکارہ دنانیر مبین نے انکشاف کیا ہے کہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے پر انہیں کئی مواقع سے ہاتھ دھونا پڑا۔
دنانیر کی جانب سے انکشاف کے بعد سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ آیا انہوں نے مقامی یا پھر بین الاقوامی سطح پر کام کرنے کے مواقع کھوئے ہیں۔
انہوں نے انسٹاگرام اسٹوری پر لکھا کہ ’فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے کی وجہ سے میرے کام کے کئی مواقع ضائع ہوئے ہیں اور مجھے اس بات پر کوئی افسوس نہیں ہے۔‘
ایک اور انسٹاگرام اسٹوری پر دنانیر نے روتے ہوئے اپنی تصویر شیئر کی جس میں انہوں نے لکھا کہ ’روزانہ صبح جاگتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ سب ٹھیک ہوجائے گا، لیکن لاشوں کو دیکھ کر یہ سب کیسے ٹھیک ہوگا؟‘
دنانیر نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’والدین اپنے مردہ بچوں کو بازوؤں میں پکڑے ہوئے ہیں؟ یہ سب دیکھ کر کیسے ٹھیک ہوگا؟ ایسا نہیں ہوتا، اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘
دنانیر کی جانب سے فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے کی وجہ سے کام کرنے کے مواقع کھونے کے انکشاف پر سوشل میڈیا صارفین نے سوال کیا کہ ’پاکستان میں ایسا کون کرسکتا ہے؟‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’آپ کو ایسے برینڈز کا نام لینا چاہیے جو پاکستان میں ہوتے ہوئے ایسا کر رہے ہیں۔‘
یاد رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری میں اب تک 14 ہزار 850 سے زائد فلسطینی مارے جاچکے ہیں اور 36 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
تاہم اب اسرائیل اور حماس کے درمیان 4 روز کے لیے جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا جو منگل کی صبح 4 بجے تک جاری رہے گی تاکہ انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دی جاسکے اور اسرائیل میں قید 150 فلسطینیوں کے بدلے حماس کے زیرِ حراست 50 یرغمالیوں کو رہا کیا جائے۔