’پارٹی ٹکٹ فیس‘ سیاسی جماعتوں کیلئے فنڈنگ حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ
آنے والے انتخابات مرکزی دھارے میں شامل تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے لیے پیسہ کمانے کا ذریعہ بننے جا رہے ہیں کیونکہ ٹکٹ دینے کے عوض امیدواروں سے ’ناقابل واپسی فیس‘ وصول کی جا رہی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مثال کے طور پر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کے خواہشمندوں کے لیے 2 لاکھ روپے فیس مقرر کی ہے۔
اگرچہ عام افراد کو اس عمل سے ’خارج‘ کرنے کی مذمت کی گئی ہے کیونکہ یہ عمل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ صرف وہ لوگ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں جن کے پاس خاطر خواہ مالی وسائل ہیں، اس سے کوئی قانون نہیں روکتا اور یہ پاکستان کی انتخابی سیاست میں عام ہو چکا ہے۔
یہ فیس کاغذات نامزدگی کے ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کروائی جانے والی رقم کے علاوہ ہے، درحقیقت مختلف جماعتوں کی جانب سے وصول کی جانے والی فیسوں میں گزشتہ برسوں کے دوران (مہنگائی کے ساتھ ساتھ) اضافہ ہوا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نامزدگی کی فیسوں میں اضافے کے لیے پیش کی جانے والی زیادہ تر تجاویز کی مخالفت کی گئی۔
2013 میں الیکشن کمیشن کی طرف سے تیار کردہ انتخابی اصلاحاتی بل کے مسودے میں قومی اسمبلی کے امیدوار کے لیے نامزدگی کی فیس 4 ہزار روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے 2 ہزار روپے سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، تاہم دونوں جماعتوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی، جنہوں نے دیکھا کہ یہ اصلاحات کی آڑ میں ایک رجعتی قدم ہے۔
اُس وقت ناقدین کا خیال تھا کہ پاکستان کے انتخابی میدان پر پہلے ہی امیروں نے قبضہ کر لیا ہے اور نام نہاد اصلاحات پارٹی کے ان کارکنوں کو پسماندہ کر دے گی جن کے پاس مالی وسائل کی کمی ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی بھی پارٹی ٹکٹ لینے کی خواہش رکھتا/رکھتی ہے تو اس کا امیر ہونا ضروری ہے۔
تجزیہ کار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہونے کے لیے کاروباری شخصیات کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو اکثر بڑی رقوم ’عطیہ‘ کی جاتی ہیں، اور مبصرین کا خیال ہے کہ جب مالی حیثیت کی بنیاد پر پارٹی ٹکٹ دیے جاتے ہیں تو عوامی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کے شہریوں کے بنیادی حق سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔
آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی ٹکٹوں کے لیے درخواست کی فیس سیاسی جماعتوں کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جیسا کہ گزشتہ 8 سالوں کے آڈٹ شدہ گوشواروں میں ظاہر ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ذاتی طور پر سوچتا ہوں کہ درخواست کی فیس وصول کرنا اس وقت تک برا خیال نہیں ہو سکتا جب تک کہ پارٹی اور امیدواروں کے اسٹیٹمنٹس میں مکمل شفافیت موجود ہو، میرے خیال میں 2 لاکھ روپے تک کی درخواست کی فیس غیر معقول نہیں ہے، لیکن اس سے زائد کوئی بھی رقم ہو، وہ حد سے زیادہ ہو گی۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اصرار کرنا چاہیے کہ عمومی طور پر جماعت سمیت انتخابی مہم میں تعاون کرنے والوں کی شناخت ان کے شناختی کارڈ نمبر کے ساتھ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا نیا بنایا گیا سیاسی فنانس ونگ امیدواروں اور جماعتوں کی آمدنی اور اخراجات کے تمام ذرائع کی جانچ پڑتال کرنے کے قابل ہو گا۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے امیدوار کے لیے زیادہ قیمتوں کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ غیر سنجیدہ امیدواروں کو فلٹر کرنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم کو مؤثر طریقے سے چلانے اور اپنا ایجنڈا اور منشور عوام تک پہنچانے کے لیے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ باخبر فیصلے کر سکیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمیں انتخابات کی عملی محرکات پر غور کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔
پارٹی کی آمدن
2018 کے انتخابات سے قبل تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے مہم پر خرچ ہونے والی رقم سے زیادہ فنڈز اکٹھا کرے۔
2018 کے الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اثاثوں اور واجبات کے گوشواروں کے مطابق تحریک انصاف اس میں سر فہرست تھی، جس نے تیزی سے فنڈ اکٹھا کیا اور اسے بے جا خرچ کیا۔
پی ٹی آئی نے انتخابی سال میں 60 کروڑ روپے جمع کیے اور 36 کروڑ روپے خرچ کیے، اتفاق سے تحریک انصاف نے جو رقم خرچ کی وہ رقم مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اکٹھی آمدن سے بھی زیادہ تھی۔
اعداد و شمار کے مطابق پی ٹی آئی نے انتخابی فیس کے طور پر 33 کروڑ 40 لاکھ روپے وصول کیے اور مقامی عطیات کے ذریعے 19 کروڑ 30 لاکھ روپے اکٹھے کیے، اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے 6 کروڑ 58 لاکھ روپے چندہ اور ممبر شپ فیس کی صورت میں اکٹھے کیے گئے، جس میں 4 کروڑ 92 لاکھ روپے کا بڑا حصہ برطانیہ سے موصول ہوا۔
2018 میں مسلم لیگ (ن) کی کُل آمدنی 12 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد تھی، جس میں ٹکٹ درخواست کی فیس کا 11 کروڑ 90 لاکھ روپے کا بڑا حصہ شامل تھا، پارٹی نے 2017 میں بھی ٹکٹوں سے ایک کروڑ 85 لاکھ روپے کمائے تھے، تاہم اسے پارٹی کارکنوں سے 2018 میں ایک پیسہ بھی عطیہ میں نہیں ملا، جنہوں نے 2017 میں 90 لاکھ 28 ہزار روپے بطور عطیہ دیے تھے۔
مسلم لیگ (ن) نے 2018 میں 4 کروڑ 82 لاکھ روپے کے اخراجات کیے جس میں سے 3 کروڑ 69 لاکھ روپے انتخابی اخراجات شامل تھے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز نے 2018 میں 10 کروڑ روپے سے زیادہ کمائی کی، جس میں صرف ٹکٹ فیس کی مد میں 9 کروڑ 37 لاکھ روپے جمع ہوئے۔
پارٹی نے 2018 میں ایک کروڑ 31 لاکھ روپے خرچ کیے، اگرچہ اثاثوں اور واجبات کے بیان میں انتخاب سے متعلق کسی خاص اخراجات کا ذکر نہیں کیا گیا، لیکن اس نے اشتہارات اور تشہیر پر 13 لاکھ 20 ہزار روپے خرچ کیے۔
ٹکٹ فیس میں اضافہ
2018 میں مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی (عام انتخابات) کے لیے ٹکٹ کی فیس 50 ہزار روپے، قومی اسمبلی کی مخصوص نشست کے لیے ایک لاکھ روپے، صوبائی اسمبلی (عام انتخابات) کے لیے 30 ہزار روپے اور صوبائی اسمبلی کی مخصوص نسشت کے لیے 75 ہزار روپے مقرر کی تھی۔
آئندہ انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کی فیس میں اضافہ کردیا گیا ہے اور اب امیدواروں کو قومی اسمبلی کی نشست کی درخواست کے ساتھ 2 لاکھ روپے کا بینک ڈرافٹ منسلک کرنا ہوگا، اسی طرح صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے خواہشمند امیدواروں کو ٹکٹ فیس کے طور پر ایک لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے۔
اسی طرح کی فیس کا ڈھانچہ پی ٹی آئی نے خواہشمند امیدواروں کے لیے بھی مقرر کیا ہے، 2013 میں پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی نشستوں کے ٹکٹوں کی درخواست کی فیس بالترتیب 27 ہزار روپے اور 17 ہزار روپے تھی، 35 سال سے کم عمر نوجوانوں کے لیے خصوصی رعایت کی پیشکش کی گئی تھی، جنہیں دونوں ایوانوں میں نشستوں کے لیے اپنی درخواستوں کے ساتھ صرف 7 ہزار روپے ادا کرنے کی ضرورت تھی۔
تاہم درخواست فیس 2018 میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کے خواہشمندوں کے لیے بالترتیب ایک لاکھ روپے اور 50 ہزار روپے کر دی گئی اور اب اسے آئندہ عام انتخابات کے لیے دوگنا کر دیا گیا ہے۔