• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

لاہور: میڈیکل طالبہ قتل کیس کے ملزم کی عبوری ضمانت منظور

شائع November 27, 2023
گزشتہ روز لاہور پولیس نے میڈیکل طالبہ قتل کیس میں قتل کی دفعات شامل کر دی تھیں —فائل فوٹو: رائٹرز
گزشتہ روز لاہور پولیس نے میڈیکل طالبہ قتل کیس میں قتل کی دفعات شامل کر دی تھیں —فائل فوٹو: رائٹرز

لاہور میں میڈیکل کی طالبہ تازن خان کے قتل کیس کے ملزم عبدالرحمٰن نے گرفتاری سے بچنے کے لیے عبوری ضمانت حاصل کرلی۔

ایڈیشنل سیشن جج اللہ دتہ نے ملزم عبدالرحمIن کی عبوری ضمانت پر سماعت کی، عدالت نے لاہور پولیس کو ملزم کی گرفتاری سے روکتے ہوئے کل مقدمے کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔

عدالت نے ملزم عبد الرحمٰن کو شامل تفتیش ہونے کا حکم بھی دیا۔

دوسری جانب واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا کہ متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی ہر قیمت پر یقینی بنائی جائے گی، مظلوم خاندان کو مکمل تحفظ فراہم کریں گے، ملزمان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی ہوگی۔

محسن نقوی نے کہا کہ اندوہناک واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کے حوالے سے انسپکٹر جنرل پولیس کو ہدایات جاری کر دی ہیں، کیس میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور پولیس نے مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کرلی تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے میڈیکل کی طالبہ کے قتل کی کوشش کے پہلے سے درج مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کر دی تھیں، لڑکی کو مبینہ طور پر 4 نومبر کو مسلح افراد نے گولی مار کر زخمی کر دیا تھا۔

تازن خان کے نام سے شناخت ہونے والی لڑکی اپنی والدہ اور بھائی محمد علی کے ساتھ ایک رشتہ دار سے ملنے کے بعد ایک کار میں اپنے گھر جا رہی تھی۔

جب وہ ایگرکس ٹاؤن پہنچے تو مسلح افراد جن میں ساجد، اس کا بھائی امجد اور دو نامعلوم افراد شامل تھے، نے ان کی کار پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں تازن خان شدید زخمی ہوگئی۔

چوہنگ پولیس نے مقتولہ کے ماموں رضوان الحق کی شکایت پر حملہ آوروں کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل پولیس رپورٹ کے مطابق لڑکی اتوار کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی، تاہم ایک عینی شاہد نے بتایا کہ واقعے کے ایک ہفتے بعد لڑکی کی موت ہوگئی تھی لیکن پولیس نے بعد میں قتل کی دفعات شامل کیں۔

کیس میں شکایت کنندہ نے پولیس کو بتایا کہ ملزمان نے اس کے خاندان کی خواتین کو ہراساں کیا اور جب انہوں نے انہیں خواتین کو ہراساں کرنے سے سختی سے روک رکھا تو مشتبہ افراد کے دل میں ان کے خلاف انتقامی کارروائی اور نفرت کے جذبات پیدا ہوگئے۔

بدلہ لینے کے لیے ساجد اور اس کے ساتھیوں نے کار کو گھیرے میں لے کر اندھا دھند فائرنگ کی، تازن خان کو پیٹ میں گولیاں لگیں اور انتہائی تشویشناک حالت میں مقامی ہسپتال منتقل کیا گیا، حملہ آور موقع سے فرار ہو گئے۔

کچھ اطلاعات یہ بھی تھیں کہ خاندان پر فائرنگ کرنے والا مرکزی ملزم ایک نوجوان کا ماموں تھا جس نے پہلے خواتین کو ہراساں کیا تھا، دیگر رپورٹس میں کہا گیا کہ نوجوان نے متاثرہ خاندان کی گاڑی کو ٹکر ماری جس کے نتیجے میں جھگڑا ہوا، نوجوان نے اپنے ماموں کو بلایا جو بندوق لے کر آیا اور تازن خان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ نوجوان کم عمر تھا، وہ اس وقت اپنی گاڑی تیز رفتار سے چلا رہا تھا جب ملزمان نے سعودی عرب سے میڈیکل کی تعلیم کے لیے لاہور آنے والی میڈیکل کی طالبہ کو ہراساں کیا۔

لڑکی کے لواحقین نے وزیر اعلیٰ سے واقعے کا نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان انتہائی بااثر ہیں اور وہ قتل کے مقدمے کی پیروی کرنے پر دھمکیاں دے رہے ہیں اور صلح کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024