پاکستان کے مطالبے پر افغان حکومت کا ڈی آئی خان حملے کی تحقیقات کا عہد
افغانستان کی عبوری حکومت نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی تحقیقات کا عہد کیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہر معاملے کے لیے کابل کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
منگل کی علی الصبح ڈی آئی خان کے علاقے درابن میں فوج کے زیر استعمال کمپاؤنڈ پر تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے حملے میں پاک فوج کے 23 جوان شہید اور 30 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا تھا کہ 6 عسکریت پسندوں کے گروپ نے سیکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کیا تاہم ان کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔
فائرنگ کے بعد دھماکے بھی کیے گئے اور دہشت گردوں نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی کو گیٹ سے ٹکرا دیا اور بعد ازاں خودکش دھماکا کیا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’ دھماکے کے نتیجے میں عمارت گر گئی، جس کے باعث متعدد ہلاکتیں ہوئی تاہم تمام چھ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔’
ٹی جے پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور دو منٹ کی ویڈیو بھی جاری کی تھی، جس میں عسکریت پسندوں کو تھرمل اسکوپ کے ساتھ سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بناتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ تاہم سیکیورٹی حکام نے دعویٰ کیا کہ ویڈیو مستند نہیں ہے۔
ٹی جے پی کے ترجمان نے اپنے دعوے میں کہا تھا کہ حملے میں حصہ لینے والے چار بمباروں کا تعلق لکی، ڈیرہ اسمٰعیل خان، سوات اور مردان اضلاع سے تھا۔
پاکستان دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کا دعویٰ کرتا رہا ہے، تاہم ٹی جے پی کا بیان اس دعوے کو چیلنج کرتا دکھائی دیتا ہے۔
حملے کے بعد دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں افغان حکومت سے پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے والی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فوری اور قابل تصدیق کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، ساتھ ہی افغان ناظم الامور سردار احمد شکیب کو طلب کرکے ڈیمارش جاری کیا گیا تھا۔
افغان ناظم الامور کو طلب کرنے والے سکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی نے صورتحال کی نزاکت اور سنگینی پر زور دیتے ہوئے حالیہ حملے کے ذمہ داروں کے خلاف جامع تحقیقات اور فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا۔
پاکستان نے تمام دہشت گرد گروپوں بشمول ان کی قیادت اور پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
سیکریٹری خارجہ نے مجرمان کے ساتھ ساتھ افغانستان سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں کی گرفتاری اور حوالگی پر اصرار کیا تھا۔
سائرس سجاد قاضی نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے مسلسل استعمال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے اقدامات علاقائی امن اور استحکام کے لیے اہم خطرہ ہیں۔
آج ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے عبوری افغان حکومت کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ کابل، حملے کی تحقیقات کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والے حملے پر ہم حیران ہیں، ہم پاکستان کے مطالبات پر غور کریں گے۔
تاہم ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ ہر معاملے میں افغانستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے اور پاکستان کو اپنی سلامتی پر توجہ دینی چاہیے۔
طالبان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ ’جس علاقے (ڈی آئی خان) میں حملہ ہوا وہ افغانستان سے سیکڑوں کلومیٹر دور ہے اور یہ پاکستان کی اپنی سرزمین ہے، پاکستان کے پاس مضبوط سیکیورٹی فورسز ہیں اور اس حملے کو ناکام بنا دیا جانا چاہیے تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کابل نے کسی کو اپنی سرزمین پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی، اگر ہمیں کوئی اطلاع ملی تو ہم تحقیقات کریں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان طویل عرصے سے اس بات پر اصرار کرتا رہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی افغان سرزمین سے آپریٹ کرتی ہے، تاہم طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔