• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

سپریم کورٹ نے آر اوز کی تعیناتی منسوخ کرنے کا لاہور ہائیکورٹ کا حکم معطل کردیا

شائع December 15, 2023
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں— فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں— فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ

بیوروکریسی کے تحت انتخابات کرانے کے معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی درخواست پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آر اوز کی تعیناتی منسوخ کرنے کا حکم معطل کردیا۔

عدالت عظمٰی نے انتخابی شیڈول کے اجرا کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک ہفتے کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنےکا حکم بھی دے دیا۔

الیکشن کمیشن کی درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

تین رکنی بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ اتنی جلدی کیا ہو گئی، اگر میں فلائٹ میں نکل جاتا تو کیا ہوتا۔

کوشش کیوں، انتخابات 8 فروری کو ہی کرانے ہیں، جسٹس طارق مسعود

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن شیڈول کے اجرا میں وقت بہت کم ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تو 8 فروری کو الیکشن کرانے ہیں جس پر وکیل نے جواب دیا کہ کوشش ہے کہ الیکشن کروا دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کوشش کی بات کیوں کر رہے ہیں۔

جسٹس طارق مسعود نے بھی الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ کوشش کیوں، آپ نے 8 فروری کو ہی الیکشن کرانے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج میری فلائٹ تھی مگر مس ہو گئی، اس کا مداوا کیسے ہو گا، چلیں کوئی بات نہیں، ہم عدالت میں کیس لگا کر سن رہے ہیں۔

کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ ہائی کورٹ میں آر اوز اور ڈی آراوز کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کا آرڈر کہاں ہے۔

دوران سماعت عدالت نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف الیکشن کون روکنا چاہتا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا درخواست گزار عمیر نیازی کون ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ درخواست گزار کا تعلق پی ٹی آئی سے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے الیکشن کا فیصلہ دیا تھا اور عمیر نیازی کی پٹیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، تو کیا اب توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کچھ تھکے ہوئے ہیں اور ہدایت کی کہ مرحلہ وار بتائیں۔

بلاوجہ ٹریننگ کیوں روکی، کیا آپ بھی چاہتے ہیں الیکشن نہ ہوں، جسٹس طارق مسعود

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ آر اوز ڈی آر اوز کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس ہائی کورٹ سے مشاورت کی جائے، الیکشن ایکٹ کا سیکشن 50 اور 51 چیلنج کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کا افسران تعینات کرنے کا حق کالعدم قرار دیا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 218 (3) میں کچھ ایسا ہے کہ انتخابات فیئر نہیں ہو سکتے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 218 تھری کے تحت فئیر الیکشن کرائے جائیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 8 فروری میں کتنے دن رہتے ہیں؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ آج سے 55 دن رہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی پروگرام 54 دن کا ہونے کے لیے آج شیڈول جاری ہونا لازمی ہے۔

اس کے بعد سیکریٹری الیکشن کمیشن روسٹرم پر آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے پلان کے مطابق ٹریننگ کے بعد ہم نے شیڈول جاری کرنا تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے الیکشن شیڈول تیار کر لیا ہے، آئین میں یہ کہا لکھا ہے کہ آپ نے ٹریننگ کے بعد ہی الیکشن شیڈول جاری کرنا ہے۔

سردار طارق مسعود نے کہا کہ آپ نے ٹریننگ بلاوجہ روکی، کیا آپ بھی چاہتے ہیں کہ الیکشن نہ ہو، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد آپ نے ٹریننگ ختم کرنے کا نوٹی فکیشن کیوں جاری کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ الیکشن شیڈول کب دیں گے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عملے کی ٹریننگ کے بعد الیکشن شیڈول جاری کریں گے۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن سے انتخابات کا شیڈول مانگتے ہوئے استفسار کیا کہ شیڈول ہے کہاں، ہمیں شیڈول دکھائیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اگر آر اوز انتظامیہ سے لینے کا قانون کالعدم ہوجائے تو کبھی الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔

کیا جج نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف رٹ جاری کی ہے؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست دی گئی ہے؟ جس پر وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست نہیں دی گئی۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے دریافت کیا کہ کیا ریٹرننگ افسر جانبدار ہو تو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد افسر اکیلے عمیر نیازی کے خلاف جانبدار کیسے ہوسکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ عمیر نیازی کو کوئی مسئلہ تھا تو سپریم کورٹ آتے، ہائی کورٹ نے پورے ملک کے ڈی آر اوز کیسے معطل کر دیے؟ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کہتے ہیں جوڈیشل افسران نہیں دے سکتے، کیا جج نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف رٹ جاری کی ہے؟

انہوں نے کہا کہ کیا توہین عدالت کے مرتکب شخص کو ریلیف دے سکتے ہیں؟ کیوں نہ عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ کیا عمیر نیازی وکیل بھی ہے یا نہیں؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمیر نیازی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رہے ہیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ہمارے فیصلے کو کون ڈی ریل کر رہا ہے، انتخابات کو ڈی ریل کرنے کے پیچھے کون ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہائی کورٹ میں سماعت کا علم ہی نہیں تھا جس پر چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا اٹارنی جنرل سے سب کچھ مخفی رکھا گیا، عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے۔

کیا عمیر نیازی کی ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟ جس پر وکیل جیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن شیڈول آج جاری ہونا تھا۔

چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ کیا اٹارنی جنرل کا مؤقف سنا گیا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ معاونت کے لیے نوٹس آیا تھا لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں اٹارنی جنرل کا ذکر ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت دی کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت سے قبل مجھ سے ہدایات لی تھیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمیر نیازی کی ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں؟ عمیر نیازی کی درخواست تو سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے۔

انہوں نے کہا کہ درخواست آئی لگ بھی گئی، حکم امتناع دینے والا جج ہی لارجر بینچ کا سربراہ بن گیا، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کوئی بھی جمہوری عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔

وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ ڈپٹی کمشنرز نظربندی کے احکامات جاری کرتے ہیں، درخواست گزار کا مؤقف ہے انہیں انتظامی افسران پر اعتماد نہیں ہے، سات دن کی ٹریننگ تھی ایک دن کی ہوئی پھر نوٹی فکیشن معطل کر دیا گیا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کون لوگ ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے؟ ہائی کورٹ نے ٹریننگ دینے سے نہیں روکا تھا، آپ نے انتخابی شیڈول جاری کیوں نہیں کیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے نوٹیفکیشن معطل کیا تھا اس لیے جاری نہیں کر سکے جس پر سردار طارق مسعود نے کہا کہ الیکشن کرانے سے متعلق ہمارا فیصلہ بہت واضح ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے تو کوئی کل کو آ کر کہے کہ کہ عدلیہ پر اعتماد نہیں تو پھر کیا کریں گے۔

اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے لاہور ہائی کورٹ کا آرڈر پڑھ کر سنایا۔

بادی النظر میں انتخابات ملتوی کرانا ہی مقصد نظر آتا ہے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک جج جب معاملہ لارجر بینچ کے لیے بھیج رہا ہے تو پھر ساتھ آرڈر کیسے جاری کر سکتا ہے؟ کیا لاہور ہائی کورٹ میں لارجر بینچ بن گیا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی لارجر بینچ بن گیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بینچ کا سربراہ کون ہے؟ جس پر وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ وہی جج سربراہ ہیں جنہوں نے پہلے سماعت کی جس پر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس نے مزید دریافت کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے ریٹرننگ افسران لیے تھے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ ملک بھر میں کتنے ڈی آر اوز اور آر اوز تھے؟ جو ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے ہیں وہ تو چیلنج ہی نہیں تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے افسران اور ڈپٹی کمشنرز بھی انتخابات نہ کرائیں تو کون کرائے گا؟ تمام ڈی آر اوز متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنرز ہیں، اس سے تو بادی النظر میں انتخابات ملتوی کرانا ہی مقصد نظر آتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ نگران حکومت کے آتے ہی تمام افسران تبدیل کیے گئے تھے، ‏اسلام آباد ہائی کورٹ نے جوڈیشل افسر فراہم کرنے کے خط کا جواب ہی نہیں دیا، ‏لاہور ہائی کورٹ کو دو خطوط لکھے گئے تو انہوں نے جوڈیشل افسر فراہم کرنے سے معذرت کی، الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینا ہی تھا۔

سماعت کا حکمنامہ

بعد ازاں سماعت کی تکمیل پر چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کردیا۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے 13 دسمبرکے حکم کے خلاف اپیل دائر کی گئی اور وکیل کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی وجہ سے الیکشن شیڈول جاری کرنا ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وکیل الیکشن کمیشن کے مطابق عدالت نے پابند کیا تھا کہ کوئی انتخابات میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا، تمام فریقین 8 فروری کی تاریخ پر متفق تھے، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عدالتی ہدایات پر 8 فروری کی تاریخ مقرر کی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق ہائی کورٹ آرڈر کے بعد انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں کیونکہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تعینات ڈی آر اوز اور ڈی آر اوز کی تعیناتی کا نوٹی فکیشن معطل کیا گیا۔

’کیوں نہ عمیر نیازی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے‘

حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں انتخابات کیس کرنے والوں کو ہائی کورٹ میں فریق بنایا گیا، درخواست میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 50 اور 51 غیر آئینی قرار دینے کی استدعا تھی۔

سپریم کورٹ نے عمیر نیازی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر عمیر نیازی نے جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالی، کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟

عدالت نے کہا کہ عمیر نیازی کہتے ہیں وہ بیرسٹر ہیں تو انہیں سپریم کورٹ کے احکامات کا علم ہونا چاہیے تھا، عمیر نیازی اسی پارٹی سے ہیں جس نے انتخابات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کسی ریٹرننگ افسر کے خلاف درخواست آئی تھی؟ جس پر الیکشن کمیشن نے بتایا کسی نے کوئی درخواست نہیں دی۔

’لاہور ہائی کورٹ کے جج نے اپنے اختیار سماعت کی حدود سے تجاوز کیا‘

اس حوالے سے مزید کہا گہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے مطابق ہائی کورٹ کے حکم میں تضاد پایا جاتا ہے، وکیل کے مطابق کیس لارجر بینچ کو بھیجتے ہوئے نوٹی فکیشن معطل کیا گیا۔

حکمانے میں مزید کہا گیا کہ سنگل جج کے فیصلے سے الیکشن کمیشن کا پورے ملک میں کام رک گیا، لاہور ہائی کورٹ نے آر اوز اور ڈی آراوز کو کام کرنے سے روکا اور لاہور ہائی کورٹ کے جج نے اپنے اختیار سماعت کی حدود سے تجاوز کیا۔

انہوں نے کہا کہ وکیل کے مطابق الیکشن شیڈول کے لیے مخصوص وقت درکارہے، حکم برقرار رکھا تو 8 فروری کو الیکشن نہیں ہوسکے گا، عدالت نے پہلے ہی کہا تھا کہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

سپریم کورٹ نے لاہورہائی کورٹ کو معاملے پر مزید کارروائی روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج نے غیرضروری عجلت میں فیصلہ کیا۔

لاہور ہائی کورٹ کو کارروائی روکنے، الیکشن کمیشن کو شیڈول کے اجرا کا حکم

عدالت عظمیٰ نے حکمنامے میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ مزید کارروائی نہ کرے اور ہائی کورٹ کو آر اوز اور ڈی آر اوز سے متعلق درخواست پر کارروائی سے روک دیا۔

سپریم کورٹ نے انتخابی شیڈول کے اجرا کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک ہفتے کی مہلت دینے کی استدعا بھی مسترد کرتے ہوئے شیڈول آج ہی جاری کرنے کا حکم دیا۔

دوران سماعت پی ٹی آئی کی وکیل مشعل یوسفزئی روسٹرم پر آگئیں جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکم نامہ لکھوا رہے ہیں، مداخلت نہ کریں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں، کیا آپ وکیل ہیں؟ جا کر اپنی نشست پر بیٹھیں، آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے، دوبارہ مداخلت کی تو توہین عدالت کا نوٹس دیں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشعل یوسفزئی سپریم کورٹ کی وکیل نہیں اس لیے ان کا بولنا نہیں بنتا۔

سپریم کورٹ نے حکمنامے میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست بظاہر قابل سماعت نہیں تھی اور درخواست گزار صرف سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا تھا، درخواست گزار اور جج دونوں نے سپریم کورٹ فیصلے کو نظر انداز کیا۔

چیف جسٹس نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ سپریم کورٹ ‏جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دے گی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول جاری کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے آج ہی انتخابات کے شیڈول کے اجرا اور آئینی ذمے داریاں ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے۔

الیکشن کمیشن نے آج ہی شیڈول جاری کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ جو عدالت کا حکم ہو گا اس پر عمل کیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن کی درخواست

قبل ازیں الیکشن کمیشن کی جانب سے سیکریٹری الیکشن کمیشن نے انتظامیہ سے آر او اور ڈسٹرکٹ آر او کی تعیناتی کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

درخواست میں الیکشن کمیشن نے استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ 8 فروری کو الیکشن کے فیصلے پر عمل کا حکم دے۔

اس سے قبل ڈی جی لا کے ساتھ ساتھ سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید بھی سپریم کورٹ پہنچے تھے اور ان کے ہمراہ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار سواتی بھی موجود تھے۔

سپریم کورٹ کی سول برانچ کا ضروری عملہ گھروں سے واپس دفاتر پہنچ گیا اور سماعت کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔

انتخابات کے حوالے سے درخواست دائر کیے جانے سے قبل جیف جسٹس آف پاکستان سے چیف الیکشن کمشنر نے ملاقات کی تھی اور انہیں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا تھا۔

اس ملاقات میں اٹارنی جنرل کے ساتھ ساتھ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شریک ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ روک دی تھی۔

11 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے بتایا تھا کہ آئندہ برس عام انتخابات کے لیے تعینات کیے گئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اوز) اور ریٹرننگ افسران (آر اوز) کی ٹریننگ آج سے شروع ہوگی۔

تاہم بدھ کی رات لاہور ہائی کورٹ نے بیوروکریٹس کی ریٹرننگ افسران (آر اوز) سمیت دیگر انتخابی عملے کے طور پر تعیناتی کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو معطل کردیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ بروقت شروع نہ ہو سکی تو انتخابات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ ٹریننگ کے بعد الیکشن کمیشن شیڈول کا اعلان کرتا ہے اور اس سلسلے میں کم از کم 54 دن کا وقت درکار ہوتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024