اسرائیلی فوج کی ’غلطی‘، فائرنگ کر کے تین یرغمالیوں کو مار ڈالا
اسرائیلی فوج نے حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے تین قیدیوں کو ’خطرہ سمجھتے ہوئے‘ گولی مار کر ہلاک کردیا جس پر تل ابیب میں شدید احتجاج کیا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی فوج نے بتایا کہ غزہ کے نواح میں کارروائی کے دوران یوتم ہیم، ایلون شمریز اور سمر التلالقہ گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔
ان تینوں افراد کو حماس نے 7 اکتوبر کی کارروائی کے دوران تقریباً 240 دیگر افراد کے ہمراہ یرغمال بنا لیا تھا لیکن آج وہ اپنی فوج کی فائرنگ سے مارے گئے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں پتا چلا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے مارے گئے یرغمالی افراد سفید پرچم لے کر آگے بڑھ رہے تھے لیکن اس دوران اسرائیلی فوج نے انہیں اپنے خطرہ سمجھ کر ان پر فائرنگ کردی۔
اسرائیلی فوج کےایک عہدیدار کے مطابق ایک فوجی نے شجاعیہ کے علاقے میں اسرائیلی فوج سے کئی میٹر کے فاصلے پر چند یرغمالیوں کو نمودار ہوتے دیکھا، وہ تمام شرٹ کے بغیر تھے اور انہوں نے لاٹھی کے ساتھ سفید کپڑا تھاما ہوا تھا لیکن فوجی کو ان سے خطرہ محسوس ہوا اور اس نے فائرنگ کردی۔
انہوں نے کہا کہ فوجی نے ان افراد کو دہشت گرد قرار دیا جس پر فورسز نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس سے دو افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے۔
فوجی عہدیدار نے بتایا کہ بٹالین کمانڈر نے فوری طور پر سیز فائر کا حکم دیا لیکن اسی دوران تیسرے شخص پر بھی فائرنگ کردی گئی جس سے وہ بھی موقع پر ہی دم توڑ گیا اور یہ سب کارروائی کے اصولوں کے منافی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے یرغمالیوں کی ہلاکت کو ناقابل برداشت دکھ قرار دیا جبکہ وائٹ ہاؤس نے بھی اسے سنگین غلطی سے تعبیر کیا۔
یرغمالیوں کی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کی پھیلتے ہی تل ابیب میں مظاہرین نے اسرائیلی وزارت دفاع کے دفتر کے سامنے احتجاج کیا اور مظاہرین نے ان 129 افراد کے پوسٹرز اٹھائے ہوئے تھے جو غزہ میں حماس کی قید میں ہیں اور اب بھی زندہ ہیں۔
یرغمالیوں کے اہلخانہ اسرائیلی حکومت سے اپنے پیاروں کی جلد رہائی کے لیے جلد از جلد معاہدہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
حماس کی قید میں موجود ایتے سوارسکی کی بہن میراو سوارسکی نے کہا کہ میں خوف سے مری جا رہی ہوں اور اب ہم حکومت سے معاہدہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی فوج کو اپنی کارروائیوں کے دوران احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے۔
بائیڈن نے کہا کہ میں اسرائیلی فوج کو حماس کے خلاف کارروائی روکنے کا نہیں کہہ رہا لیکن اس بات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ کس طرح سے شہریوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں اور بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔