تینوں بڑی جماعتوں کی حکومتیں آنے کے باوجودسرگودھا کی قسمت نہ بدلی
برطانوی راج میں ماسٹر پلان کے تحت بننے والے پنجاب کے شہرسرگودھا نے 1965ء کی جنگ میں جرات و بہادری کے کارناموں پر ہلال استقلال پایا، یہ شاہینوں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔
سرگودھا کا ایک حوالہ اس کے میٹھے رسیلے کینو بھی ہیں جو دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ چار لاکھ ایکڑ پرپھیلے باغات سے سالانہ 12 لاکھ میٹرک ٹن کینو برآمد ہوتے ہیں جس کے باعث سرگودھا پاکستان کا کیلی فورنیا کہلایا جاتا ہے۔
انتظامی طور پر ضلع سرگودھا کی سات تحصیلیں سرگودھا، سلانوالی، شاہ پور، بھلوال، کوٹ مومن، بھیرہ اور ساہیوال ہیں۔ یہاں قومی اسمبلی کی پانچ جبکہ پنجاب اسمبلی کی دس نشستیں ہیں۔ ضلع کی کل آبادی 41 لاکھ 18ہزار سے زائد ہے۔ 26 لاکھ 42 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 14 لاکھ 5 ہزار اور خواتین کی تعداد 12 لاکھ 36 ہزار 561 ہے۔ یہاں 4 ہزار 509 خواجہ سرا ووٹرز بھی رجسٹرڈ ہیں۔
2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے ضلع سرگودھا میں قومی اسمبلی کی پانچوں نشستوں پر کلین سوئپ کیا جبکہ پنجاب اسمبلی کی پانچ سیٹوں پر کامیابی سمیٹی۔ صوبائی کی پانچ نشستوں پر تحریک انصاف نے میدان مارا۔ 2008ء سے تینوں بڑی جماعتوں کی حکومتیں آنے کے باوجود سرگودھا کی قسمت نہ بدلی۔ شہری تباہ حال انفراسٹرکچر، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور سیوریج، ٹریفک اور صفائی کے ناقص نظام کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔
2008ء سے 2013ء تک وفاق پرحکمرانی کرنے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما تسنیم احمد قریشی کہتے ہیں ان کی حکومت ہوتی تو یہ نہ مسائل نہ ہوتے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما حامد حمید اپنے دور کو شہر کے لیے سنہرا دور قرار دیتے ہے۔ انتخابی محاذ گرم ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف فی الحال شہر کے منظر نامے سے غائب ہے۔
بار بار دھوکے کا شکوہ کرنے والے سرگودھا کے عوام کہتے ہیں کہ وہ اس بار خوب چھان پھٹک کرکے اپنے نمائندوں کا چناؤ کریں گے۔ آئندہ انتخابات میں عوام کس کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں فیصلے کی گھڑی بس چند ہفتوں کی دوری پر ہے۔