• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

’سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں، ذاتی مسئلے نہیں سنیں گے‘، لاپتا افراد سے متعلق کیس کی سماعت 9 جنوری تک ملتوی

شائع January 3, 2024
—فائل فوٹو: رائٹرز
—فائل فوٹو: رائٹرز

سپریم کورٹ میں لاپتا افراد، جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی براہ راست نشر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریمارکس دیے ہیں کہ کیس کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں، اس میں ذاتی مسئلے نہیں سنیں گے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ درخواست پر اعتراضات ختم کر دیے تھے لیکن ابھی تک نمبر نہیں لگایا گیا جس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیس آگے بڑھائیں رجسٹرار اعتراضات کے خلاف تحریری آرڈر آج کردیں گے۔

شعیب شاہین کی جانب سے لاپتہ افراد سے متعلق ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا کہ ایجنسیوں کے کردار پر فیض آباد دھرنا کیس میں بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فیض آباد دھرنا کیس سے لاپتہ افراد کا کیا تعلق ہے؟

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لاپتا افراد کا براہ راست ذکر نہیں لیکن ایجنسیوں کے آئینی کردار کا ذکر موجود ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے میں قانون کے مطابق احتجاج کے حق کی توثیق کی گئی ہے، کچھ دن پہلے مظاہرین کو روکا گیا تھا اس حوالے سے بتائیں۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ عدالت نے سڑکیں بند کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے پر کارروائی کا کہا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ حیرت ہے آپ فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ دے رہے ہیں، وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، پہلے دن سے ہی فیض آباد دھرنا فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس سے پہلے ایک اور کیس تھا، ابصار عالم میڈیا پر بات کر رہے تھے، انہوں نے ہمت پکڑی اور اس عدالت میں آکر بات کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ عمران ریاض کو عدالت بلاے تو وہ پیش ہونے کو تیار ہیں؟ شعیب شاہین نے جواب دیا کہ تحفظ فراہم کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم کسی کے لیے کارپٹ بچھائیں گے، اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کرائے، ہمارے پاس کوئی فوج کھڑی ہے جو تحفظ دیں گے، آپ اس کو سیاسی اکھاڑا نا بنائیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شیخ رشید نے آپ کو کیا کہا ؟ دھرنا کیس، الیکشن کیس میں شیخ رشید عدالت آ سکتے ہیں تو اس میں کیوں نہیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو اپنے لیے بات نہیں کر سکتے تو وہ کسی کے لیے کیا بات کریں گے۔

وکیل شعیب شاہین نے مطیع اللہ جان کیس کا بھی حوالہ دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ کل آپ مطیع اللہ جان کا نام نہیں لے رہے تھے، اس وقت کی حکومت نے ذمے داری لی تھی؟ شعیب شاہین نے کہا کہ اس وقت کی حکومت کی مداخلت سے ہی شاید وہ جلدی واپس آگئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کریڈٹ نہ لیں، وہ واقعہ کیمروں میں ریکارڈ ہو گیا تھا، حیران ہوں اس کیس میں ایک بھی بندے کو زمےدار نہیں ٹھہرایا گیا، یہ کیس دو منٹ میں حل ہو سکتاہے۔

چیف جسٹس نے آمنہ مسعود جنجوعہ کو روسٹرم پر بلایا، آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ میرے شوہر 2005 میں جبری گمشدہ ہوے تھے، اس وقت چیف جٹس افتخار چوہدری نے نوٹس لیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسوقت کس کی حکومت تھی؟ آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ اسوقت پرویز مشرف کی حکومت تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپکے شوہر کو کس وجہ سے اٹھایا گیا تھا؟ آپ کے شوہر کیا کرتے تھے اور اس وقت حکومت کس کی تھی؟

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ مشرف کی حکومت میں میرے بزنس مین شوہر کو اٹھایا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کارباری شوہر کا حکومت یا ریاست سے کیا تعلق تھا؟ ریاست کس وجہ سے آپ کے شوہر کو اٹھائے گی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے وجہ سمجھ آئے کہ حکومت نے کیوں آپ کے شوہر کو اٹھایا ہوگا، کیا آپ کے شوہر مجاہدین کے حامی تھے یا کسی تنظیم کے رکن تھے؟ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ لاپتا افراد کمیشن نے میرے شوہر کو 2013 میں مردہ قرار دیدیا تھا، میرے شوہر دوست سے ملنے پشاور کے لیے نکلے لیکن پہنچے نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کو کس پر شک ہے؟ غیرریاستی عناصر بھی ہیں اور ایجنسیاں بھی، آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ سال 2007 میں معلوم ہوا کہ میرے شوہر آئی ایس آئی کی تحویل میں ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ کون ہیں، ان کی کتنی عمر ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ ہیں جن کی عمر 77سال ہے۔

رجسٹرار لاپتا افراد کمیشن کا نمائندہ عدالت میں پیش ہوا، چیف جسٹس پاکستان نے رجسٹرار لاپتا افراد کمیشن سے مکالمہ کیاکہ کیا آپ صرف تنخواہ ہی لے رہے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کتنی مرتبہ کمیشن کا اجلاس ہوتا ہے، کتنی ریکوری ہوتی ہے، رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے جواب دیا کہ اس ماہ 46 لوگ بازیاب ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے 2011میں ریٹاٸرڈ ہوئے۔

چیف جسٹس نے لاپتا افراد کمیشن کے رجسٹرار کو روسٹرم پر بلاکر استفسار کیا کہ کیا کمیشن صرف تنخواہیں ہی لیتا ہے یا کوٸی اور کام بی کرتا ہے؟ جسٹس محمد علی نے کہا کہ ایک ماہ میں کتنے اجلاس ہوتے ہیں ؟ کتے لوگ بازیاب ہوتے ہیں؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج کل لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں یا نہیں ؟ آپکے پاس کیسز آ رہے ہیں ؟ رجسٹرار کمیشن نے کہا کہ جی کمیشن کے پاس کیسز آ رہے ہیں ، کیسز آنے کے بعد کمیشن جے آٸی ٹی بناتی ہے۔

آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ ہم لوگ لاپتہ کمیشن کے پاس گٸے ، ہم ان سے مطمن نہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزازاحسن صاحب آپ مطمن ہے اس کمیشن سے یا نہیں ؟ جس پر اعتزاز احسن نے جواب دیا کہ میں بالکل مطمن نہیں ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہاں اعتزاز احسن سمیت کوٸی بھی لاپتہ افراد کیلٸے قاٸم کمیشن سے مطمن نہیں ، لطیف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سے بڑی عمارت لاپتا افراد کمیشن والوں کی ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کمیشن کے لوگ کا تقرر کیسے ہوا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کمشین کے نمائندگان کی معیاد میں توسیع ہوتی رہی، دوران سماعت چیف جسٹس نے وزیرستان میں 6 حجاموں کے قتل کا تذکرہ کیا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا قتل کرنے والے کو خدا کا خوف نہیں ہوتا؟ 6 نائی قتل کر دیے گئے لوگوں کو خوف ہی نہیں ہے، قتل کرنے والے یہاں سزا سے بچ سکتے آخرت میں تو جواب دینا ہوگا، بلوچستان میں 46 زائرین کو مار دیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کا کام نہیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی سوچ کو بدلے۔

سپریم کورٹ نے آمنہ مسعود جنجوعہ کی درخواست پر وزارت داخلہ اور دفاع سے جواب مانگ لیا، عدالت نے کہا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ کے کیس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹھارہ سال گزر گئے ہیں سچائی جاننا آمنہ جنجوعہ کا حق ہے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں سپیشل بنچ بنا چکی ہے جو کمیشن کارروائی کو سپروائز کرتا تھا، سپیشل بنچ نے وہ کیسز دیکھنے تھے جن میں پروڈکشن آرڈر پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیشن کو جب علم ہی نہیں کہ بندا کہاں ہے تو پروڈکشن آرڈر کیسے جاری کر سکتا ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کمیشن ابتدائی انکوائری میں تعین کرتا ہے کہ کیس جبری گمشدگی کا ہے بھی یا نہیں، لاپتہ افراد کمیشن کے احکامات پر حکومت عملدرآمد نہیں کرتی، کمیشن نے 700 پروڈکشن آرڈر جاری کیے عملدرآمد صرف 51 پر ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار آج والوں تو نہیں ٹھہرا سکتے، ہم مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، حکومت کو کمشین کے پروڈکشن آرڈر پر جواب دینا چاہیے، کمیشن کی جانب سے جاری کردہ تمام پروڈکشن آرڈر بارے تفصیلی رپورٹ دیں، لاپتہ افراد کیس میں ذاتی مسلے نہیں سنیں گے۔

عدالت نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر تے ہوئے سماعت 9جنوری تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہے پشاور ہائی کورٹ کے ججز کے حوالے سے، آج مزید سماعت کرنا ممکن نہیں ہوگا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے کمیشن نے کیا کام کیا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اختر مینگل نے اپنی رپورٹ جمع کروا دی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتا افراد کیس میں کسی کے ذاتی مسائل نہیں سنیں گے۔

عدالت نے منگل تک لاپتا افراد کمیشن سے تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کمیشن کو تمام پروڈکشن آرڈرز اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل آگاہ کریں پروڈکشن آرڈرز کے حوالے سے حکومت کا کیا موقف ہے، وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے خلاف دائر اپیلیں واپس لے لیں جس عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ ہائی کورٹ کے احکامات پر عملدر آمد ہوچکا ہے۔

یاد رہے کہ سینیئر وکیل اعتزاز احسن سمیت متعدد درخواست گزاروں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔

یکم جنوری کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں لاپتا افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس 2 جنوری کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔

گزشتہ روز 2 جنوری کو کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ بہت ضروری اور اہم کیس ہے، یہ مسئلہ حل ہوگا جب ہم سب مل کر کریں گے، اس مقدمے کو سیاسی نہ بنائیں، سنجیدہ مسئلہ ہے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی تھی اور آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھی لاپتا افراد سے متعلق دلائل کے لیے طلب کرلیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024