• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اپنے دکھڑے نا روئیں، بتائیں کیا ریلیف چاہیے، چیف جسٹس کا پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ

شائع January 8, 2024
—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی عدم فراہمی پر پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں آپ کے 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہوں؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔

پی ٹی آئی وکلا ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ، ایڈووکیٹ شعیب شاہین اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہم نے پنجاب سے رپورٹ مانگی تھی، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک رپورٹ الیکشن کمیشن اور دوسری چیف سیکریٹری پنجاب نے جمع کرائی ہے، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کیا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کے خط پر آپ کو نوٹس جاری کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے وکیل ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کیا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کے لوگوں کے 1195 کاغذات نامزدگی جمع کرایا۔

چیف جسٹس نے وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمہ کیا کہ کیا چیف سیکریٹری پنجاب کا جواب آپ نے دیکھا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں رپورٹ میں کیا غلط ہے ؟ رپورٹ پر اعتراضات ہیں تو تحریری طور پر جمع کروائیں وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ جس وجہ سے رپورٹ مانگی گئی اسکا ایک بھی جواب نہیں دیا گیا۔

’الیکشن کمیشن قانون کے مطابق جو نہیں کر رہا وہ عدالت کو بتائیں‘

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کی شرح 76.18فیصد ہے، آپ یہ بھی کہہ رہے کہ ٹربیونل نے آپ کے امیدواروں کی اپیلیں بھی منظور کی ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ پھر آپ چاہتے کیا ہیں؟ پھر کہہ دیں کہ آپ کے سو فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہونے چاہیے، یہ کورٹ آف لا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ پھر آپ چاہتے کیا ہیں؟ چیف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ پھر کہہ دیں کہ آپ کے سو فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہونے چاہیے، الیکشن کمیشن قانون کے مطابق جو نہیں کر رہا وہ عدالت کو بتائیں، یا آپ کو پاکستان کے کسی ادارے پر اعتبار نہیں ؟ یا پھر وجوہات بتائیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر آپ عدالت سے کوئی حکم آپ چاہتے ہیں تو وہ بتائیں جو ہم کردیں، آپ اپنے دکھڑے نا روئیں بلکہ بتائیں کہ یہ ریلیف چاہیے، آپ کس جماعت کے امیدوار ہیں؟

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا امیدوار ہوں، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی ہے؟ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی، پیپلز پارٹی چھوڑے کافی دیر ہو گئی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں سوال ہی نہیں کرنے دے رہے، ہمیں پوچھنے سے روک دیتے ہیں، اس طرح کریں عدالتی حکم بھی آپ خود ہی لکھوا لیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے علاوہ کسی اور جماعت کے رہنما پر ایم پی او نہیں لگا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)سمیت سب جماعتیں آپ کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔

’اداروں کی جانب سے بیان کیے گئے حقائق غلط ہیں تو تردید کریں‘

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ پی ڈی ایم کی پوری حکومت ہمارے خلاف تھی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اب تو پی ڈی ایم کی حکومت ہی نہیں ہے، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہماری بلے کے نشان کی واپسی کے لیے درخواست مقرر ہی نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کی بلے کے نشان سے متعلق درخواست کل سماعت کے لیے مقرر کرنے کی یقین دہائی کرادی، چیف جسٹس نے وکیل لطیف کھوسہ سے استفسا کیا کہ کیا پی ٹی آئی کو الیکشن چاہیں؟ وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ 100 فیصد الیکشن چاہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ہاں یا نہ میں بتائیں، الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کروانا ہے، یہ آپ کے بنائے ہوئے ادارے ہی ہیں، پارلیمان نے ہی بنائے ہیں یہ ادارے، ان اداروں کی قدر کریں، اگر ان کی جانب سے بیان کیے گئے حقائق غلط ہیں تو تردید کریں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کے الزامات پر تردیدی جواب آجاتا ہے تو آپ کہتے ہیں یہ درست نہیں، ہم کسی کی انتخابی مہم نہیں چلا رہے، دفعہ 144 اور ایم پی او سب کے لیے ہوگا، صرف پی ٹی آئی کے لیے نہیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے منشی سے سپریم کورٹ میں دستاویزات چھینی گئیں، لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ اس واقعہ کا آپ کو بھی علم ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اس واقعہ کا کوئی علم نہیں ہے، یہ منشی کیا ہوتا ہے، وکیل یا ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہوتا ہے، منشی کو تو چیمبرز جانے کی اجازت ہی نہیں ہے، آپ کے کسی منشی کی درخواست میں نہیں سنوں گا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس سردار طارق مسعود کے سامنے بھی منشی والا معاملہ اٹھایا تھا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جو ججز یہاں موجود نہیں ان کے بارے میں کوئی بات نہیں سنیں گے، ہمارے سامنے کچھ دائر ہوگا تو ہم اسے دیکھیں گے، اگر ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور ہمیں بھی دیکھنا چاہیے تو یہ بات غلط ہے، کوئی درخواست آئے گی، شکایت آئے گی تو ہم سنیں گے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا پلان ہے، عمران خان پر فرد جرم عائد کر دی گئی، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سیاسی باتیں نہ کریں ہمارے سامنے اس وقت عمران خان کی کوئی درخواست نہیں۔

’سب سے زیادہ درخواستیں پی ٹی آئی کی سنی جا رہی ہیں، کیس لگوانا ہے، اٹھ کر عدالت بھی نہیں آنا‘

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ بلے کی نشان والی درخواست آج ہی لگائیں، کل پشاور ہائیکورٹ میں سماعت ہے، وکیل حامد خان سپریم کورٹ کی لائبریری میں بیٹھے ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حامد خان ہمارے سامنے نہیں آئیں گے تو ہم کس کو سنیں، سب سے زیادہ اس وقت مقدمات پی ٹی آئی کے آرہے ہیں،پی ٹی آئی مظلوم ہے اس لیے زیادہ مقدمات آرہے ہیں، سیاسی تقاریر یہاں نہ کی جائیں۔

چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کیا کہ آپ اس کیس کا بتاتیں کیا کرنا ہے، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ مجھے تین دن کا وقت دے دیں الیکشن کمیشن کی رپورٹ پر جواب جمع کرا دوں گا۔

چیف جسٹس نے لیول پلئنگ فیلڈ آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کیا۔

سپریم کورٹ نے بلے کے نشان کیس میں حامد خان کو بلا لیا، شعیب شاہین نے کہا کہ استدعا ہے کہ آج ہی کیس سماعت کے لیے مقرر کر کے سنا جائے، کل پشاور ہائیکورٹ میں سماعت ہے بلے کے نشان سے متعلق، آج کسی بھی وقت کیس کو سماعت کر کے سن لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان کہاں ہیں؟ بلائیں ان کو، اگر آپ اٹھ کر کمرہ عدالت آنے کی زحمت نہیں کریں گے تو ہم کیا کریں؟ سب سے زیادہ درخواستیں پی ٹی آئی کی آ رہی ہیں اور سنی بھی جا رہی ہیں، کیس بھی لگوانا ہے اور اٹھ کر عدالت بھی نہیں آنا۔

پی ٹی آئی کی بلے کے نشان کی بحالی سے متعلق درخواست 11 جنوری بروز بدھ کے لیے مقرر کردی۔

پی ٹی آئی کی لیول پلینگ فیلڈ عدم فراہمی پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت پیر 15 جنوری تک ملتوی کردی۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 26 دسمبر کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے پر پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی تھی۔

پی ٹی آئی کی درخواست میں الزام لگایا گیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود پی ٹی آئی امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکا گیا، صوبائی الیکشن کمشنر کے متعدد خطوط لکھے لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

درخواست میں پی ٹی آئی نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ 22 دسمبر کے احکامات پر عملدرآمد یقینی بنائے، پی ٹی آئی امیدواروں اور رہنماؤں کو گرفتاریوں اور حراساں کرنے سے روکا جائے۔

اس میں استدعا کی گئی کہ عدالتی حکم عدولی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، پی ٹی آئی امیدواروں کو ریلیوں اور جلسوں کی اجازت دی جائے۔

پی ٹی آئی نے توہین عدالت کی درخواست پر فوری سماعت کرنے کی بھی استدعا کی، درخواست میں چاروں چیف سیکریٹریز، آئی جیز کے علاوہ سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری الیکشن کمیشن کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 22 دسمبر کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق درخواست کو نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام شکایات پر فوری ایکشن لے کر انہیں حل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

مقدمے کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے کی تھی۔

ان عدالتی احکامات کے بعد تحریک انصاف کا وفد الیکشن کمیشن پہنچا تھا جہاں ای سی پی نے اسے لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابی عمل میں رکاوٹ بننے والے ڈی آر اوز، آر اوز اور پولیس افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024