امریکا کا شام، عراق میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ٹھکانوں پر حملہ
امریکا نے شام اور عراق میں ایرانی پاسداران انقلاب اور دیگر ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کے ٹھکانوں پر حملے کردیے۔
’ڈان نیوز‘ کے مطابق امریکی فوجیوں نے مجموعی طور پر 85 مقامات کو کامیابی سے نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
شام میں ’آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس وار مانیٹر‘ کے مطابق امریکی فوج کی جانب سے اِن حملوں میں تقریباً 18 ایرانی حمایت یافتہ جنگجو مارے گئے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے ایک بیان میں بتایا کہ حملوں میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ’بی ون بومبر‘ طیارے استعمال کیے گئے، جن تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ان میں کمانڈ اینڈ کنٹرول آپریشن سینٹرز، انٹیلی جنس سینٹرز اور اسلحہ کے اڈے شامل ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے واضح کیا کہ ان کا رد عمل آج سے شروع ہوا ہے اور یہ حملے مستقبل میں بھی ان کی مرضی کے مطابق منتخب کردہ وقت اور مقام پر جاری رہیں گے۔
جوبائیڈن نے کہا کہ وہ مشرقی وسطیٰ میں کشیدگی نہیں چاہتے لیکن جو امریکی شہریوں کو نقصان پہنچائے گا تو اس کا بھر پور جواب دیا جائے گا۔
ترجمان امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان کربی نے بھی حملوں کو کامیاب قرار دیا، اُن کے مطابق اِن حملوں کا دورانیہ 30 منٹ سے زائد تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان حملوں کے دوران 7 علیحدہ علیحدہ تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، امریکی محکمہ دفاع تاحال ان حملوں سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگا رہا ہے تاہم امریکا کا خیال ہے کہ یہ حملے کامیاب رہے اور مزید ایسی کارروائیاں کی جائیں گی۔
دوسری جانب عراقی وزیراعظم محمد شیاع السودانی کے عسکری ترجمان یحییٰ رسول نے کہا ہے کہ امریکی حملے عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں اور عراق سمیت پورے خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے سنگین نتائج کا باعث بنیں گے۔
امریکا کی جانب سے اِن حملوں سے قبل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران جنگ میں پہل نہیں کرے گا مگر کسی نے بھی حملہ کیا تو اسے سخت جواب دیا جائے گا۔
ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ایرانی فوجی قوت خطے میں کبھی کسی ملک کے لیے خطرے کا باعث نہیں بنی ہے، خطے میں موجود ممالک کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ ہم پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔
قبل ازیں 28 جنوری کو اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ڈرون حملے میں 3 امریکی فوجی ہلاک اور 34 زخمی ہو گئے تھے، امریکی صدر جو بائیڈن نے اس کا ذمے دار حوثیوں کو قرار دیا تھا۔
بعدازاں امریکی صدر جوبائیڈن نے بیان دیا تھا کہ امریکا نے طے کرلیا ہے کہ اردن حملے میں 3 فوجیوں کی ہلاکت پر جواب کیسے اور کب دینا ہے۔
واضح رہے کہ اکتوبر کے وسط سے اب تک عراق، شام اور اردن میں امریکی اور اتحادی فوجیوں پر ڈرون، راکٹ اور مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں سمیت دیگر ہتھیاروں سے 165 سے زائد حملے کیے جاچکے ہیں۔