پاکستانی سیاست کی الف لیلہ
گزشتہ پچاس سال سے بھٹو کا سایہ سیاست پر چھایا ہوا تھا اور کس کو پتا ہے کہ مستقبل میں عمران خان، موجود ہوں یا نہ ہوں، ان کا آسیب ہمارا پیچھا کرتا رہے گا۔ نصف صدی پہلے کس کو پتا تھا کہ بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دی کر آج عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دوبارہ سنا جائے گا اور کسی کو کیا پتا آنے والے کل میں عمران خان کو سیاست سے باہر کرنے کا فیصلہ بھی قومی سوال بنا کسی عدالت کے ضمیر پر دستک دے رہا ہو۔
کسی کو کیا پتا تھا 2018ء میں انتخابات سے پہلے عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے نواز شریف کو مجرم قرار دے کر سیاست سے باہر دھکیلا جائے گا، پھر پانچ سال بعد ان کے لیے اقتدار کے ایوان میں پرتقدس واپسی یقینی بنائی جائے گی اور آج بھی کس کو پتا کل عمران خان کسی ناگزیر قومی مصلحت کی بنا پر دوبارہ آنکھوں کے تارے بن چکے ہوں گے۔
پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں 45 سال میں 23 وزیر اعظم اور 32 سال میں 4 فوجی آمر حکمرانی کرتے رہے، گویا ہر وزیر اعظم اوسطاً 2 سال 10 مہینے اور ہر فوجی آمر کی اوسط مدت 8 سال ہے۔ لیاقت علی خان قتل ہوتے ہیں تو ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھتے ہیں، وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی سیاسی قائد جبری یا رضاکارانہ جلاوطنی کاٹتا نظر آتا ہے۔ 1951ء میں پہلے وزیر اعظم صاحبزادہ لیاقت علی خان کا پراسرار قتل درحقیقت نوزائیدہ ریاست میں جمہوریت کا خون تھا، غلام محمد، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کے ٹرائیکا کی سازشیں اور بالآخر جنرل ایوب خان 1958ء میں شب خون مار کر اقتدار پر قابض ہوئے اور وطن عزیز کے پہلے فوجی آمر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ جمہوریت کی نوخیز کلیوں کو بوٹ تلے مسل دیا گیا، تب سے آج تک پاکستان میں جمہوریت کبھی آزاد نہ رہی، شیخ رشید کو سچا جانیں تو ہر سیاستدان گیٹ نمبر چار کا مجاور نظر آتا ہے۔ کس نے سوچا تھا محمد علی جناح جیسے جمہوریت اور اصول پرست رہنما کے جانشین ایسے ہوں گے؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ جمہوریت اور آمریت کے درمیان رومانس کی عجب کہانی ہے، فوجی اور سویلین حکمرانوں کی آپسی محبت اور رقابت کے بنتے بگڑتے رشتے، دھواں دھار مکالمے، الفریڈ ہچکاک جیسا غضب کا سسپنس پتا ہی نہیں چلتا کون ہیرو ہے اور کون ولن، کرداروں کے پرپیچ تانے بانے اور ریاست کے سکڑتے پھیلتے سرابوں جیسے دائروں میں ہچکولے کھاتے 24 کروڑ عوام سیاسی بساط پر پتلی تماشا دیکھ رہے ہیں۔
سچ جانیں تو بعض اوقات جارج آورویل کوئی ولی دکھائی دیتا ہے، 1945ء میں لکھی گئی کتاب اینیمل فارم میں کہتا ہے ’کامریڈ نپولین کو یقین کامل ہے کہ تمام جانور برابر ہیں اور وہ انتہائی خوش ہیں کہ آپ کو اپنے فیصلے خود کرنے کا پورا اختیار ہے۔ لیکن کبھی کبھی آپ غلط فیصلے کر سکتے ہیں، تو ساتھیو، پھر ہمیں آنا ہو گا‘۔
قرین قیاس ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے ٹرائل کے بعد براہ راست کوئی فوجی آمر حکمران نہ آئے، مگر یہ بھی بعید از قیاس ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی اور منتخب رہنما کا سیاسی قتل کیا جائے۔ طاقت کا استعمال نہ ولی خان کی نیپ کو ختم کر سکا، نہ بھٹو کی پیپلز پارٹی کو، نہ ہی نواز شریف کی مسلم لیگ سیاست سے باہر ہوئی اور نہ ہوئی الطاف حسین کی ایم کیو ایم، سب نے ہمدردی کی لہر پر سفر کیا، کہیں ایک ہی غلطی کو بار بار دھرانا اس باعث تو نہیں کہ غلطی کو غلطی سمجھا ہی نہیں جا رہا۔
افلاطون کی کتابیں ریاست، قوانین اور فلسفی حکمران سیاسی نظریات پر کمال درجہ رکھتی ہیں، افلاطون کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے قائل تھے، ایتنھر کے ماحول میں ذہنی صلاحیت رکھنے والوں کو اوپری طبقہ شمار کرتے تھے جنہیں حکمران، طاقتور افراد کو دفاع اور معمولی صلاحیت کے لیے مزدوری اور کھیتی باڑی کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ افلاطون کا خاندان اینتھنز کی شاہی باقیات کا حصہ تھا، جس بادشاہت کو یونانی جمہوریت نے کچل ڈالا تھا، مستزاد یہ کہ اسی یونانی جمہوریت نے استاد سقراط کو زہر کا پیالہ پینے کی سزا دی، سچ ہے انسان کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو اس کا ماضی اس کے مستقبل اور سوچ سے جڑا ہوتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ماضی کی تلخ ترین یادوں کے باوجود پاکستان کے عوام اداروں کی عزت کرتے ہیں، سیاستدانوں کی عزت کرتے ہیں اس کے باوجود کہ خطے کے دیگر ممالک کہیں بہت آگے نکل گئے ہیں، اس کے باوجود کہ بنگلہ دیش کا ٹکہ اب ڈھائی روپے میں پڑتا ہے، اس کے باوجود کے ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک جمہوریت اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہیں، دنیا میں عزت دارانہ مقام رکھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام عدلیہ کی بھی بے انتہا عزت کرتے ہیں، جسٹس منیر کے باوجود، جسٹس نسیم شاہ کے اعترافات کے باوجود، جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس ثاقب نثار کی دلیرانہ ناانصافیوں کے باوجود، تین طویل سیاہ فوجی حکمرانی، اورآئین کی پامالی مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام افواج پاکستان کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ میڈیا کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی چونکہ مفادات کی جنگ کا سب سے بڑا شریک جو جھوٹ نہیں بولتا مگر ادھورا سچ دکھا اور سنا کر مہلک ابلاغ کے ذریعے معاشرے کی سیاسی تقسیم، انتشار اور زہر آلود کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے، لیکن عوام پھر بھی صحافیوں اور ان کے اداروں کی عزت کرتے ہیں۔
عوام سب کی عزت کرتے ہیں مگر ان کی عزت کون کرتا ہے؟ 24 کروڑ عوام بھی عزت کے مستحق تو ہیں کچھ اور نہیں تو 77 سالہ مسلسل صبر کے بعد وہ انگریزی کا ایک محاورہ ہے ناں، Respect earned not demanded تو بڑا سوال ہے کہ عوام کو عزت کون دیتا ہے؟ اتنے تجربات کے بعد پاکستان کے اجتماعی عقل، شعور اور رائے کو عزت دینے میں کیا حرج ہے۔ چلیں کچھ اور نہیں تو کم از کم توہین انسانیت کا قانون ہی وضع کر لیں تا کہ عام شہری کو بھی تقدس حاصل ہو جائے۔
پاکستان کے 24 کروڑ عوام ایک ایسے مسیحا کے منتطر ہیں، جو زندگی کی بنیادی سہولیات دے سکے، وہ بہتر زندگی نہیں صرف جینے کا حق مانگتے ہیں، پینے کا صاف پانی، بجلی، گیس، دو وقت کی روٹی، پرامن ماحول، وہ لندن میں نہیں پاکستان کے سرکاری اسپتال میں علاج کرانا چاہتے ہیں، اپنے بچوں کو امریکا میں نہیں پاکستان میں پڑھوانا چاہتے ہیں، وہ دہشتگردوں کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتے، بس جینا چاہتے ہیں، صرف جینا۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ سیاست کے کھیل میں ریاست کہیں پیچھے رہ گئی ہے، اسٹیبلشمنٹ دنیا کے ہر ملک میں ہوتی ہے، پاکستان کی نوعیت و ہیت منفرد سہی، مگر یہ صرف اسٹیبلشمنٹ نہیں ہوتی بلکہ اس کائناتی حلقے کے گرد ایک بڑی انجمن ہوتی ہے جس میں ادارے، سرمایہ دار، بیوروکریٹس، صنعت کار، جاگیردار، عوامی اہمیت کے حامل افراد، ذہین و فطین پروفیشنلز اور جانے کیا کچھ، سب جانتے ہیں پاکستان میں 3 سے 4 ہزار مراعات یافتہ افراد اس قبیلے میں شامل ہیں جو فیصلہ ساز کردار ادا کرتے ہیں۔ شاید یہ بھی درست ہے کہ اسی طبقہ اشرافیہ میں اسٹیبلشمنٹ اور اس کے جھرمٹ میں دمکتی انجمن کی بھرپور نمائندگی ہوتی ہے، سب رشتے ناطوں کی کہکشاں میں کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے جڑے دائروں میں فروزاں ہیں۔ شطرنج کی بساط پر شہ مات، سنسنی خیز کھیل ختم ہونے کے بعد تمام مہرے بند ڈبے ایک دوسرے سے بغل گیر تماشائیوں کے جذبات پر قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں۔
کل کیا ہوگا کسی کو پتا نہیں مگر پاکستانیوں کو یہ ضرور پتا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا۔
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے