حماس کی یرغمالیوں کی رہائی کیلئے 135 روزہ جنگ بندی کی پیشکش
حماس نے اسرائیل کو ساڑھے 4 ماہ کی جنگ بندی اور غزہ کی پٹی سے قابض فوج کے انخلا کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی کی پیشکش کی ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق گزشتہ ہفتے اس معاملے میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے قطر اور مصر نے ایک پیشکش کی تھی جس کی امریکا اور اسرائیل نے منظوری دی تھی جسے بہت بڑی سفارتی پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
اس پیشکش کے جواب میں آج حماس نے اپنی پیشکش کی ہے جس پر ابھی تک اسرائیل نے عوامی سطح پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے جو اب تک حماس کے خاتمے تک افواج کے انخلا کا مطالبہ رد کرتا رہا ہے۔
حماس کی جانب سے 45 روز پر محیط تین مراحل پر مبنی جنگ بندی کی پیشکش کی گئی ہے جس میں حماس 7 اکتوبر کو یرغمال بنائے گئے افراد کا فلسطینیوں کے بدلے تبادلہ کرے گی جس کے بعد غزہ کی ازسرنو تعمیر کا عمل شروع ہو گا، اسرائیلی فوج غزہ سے دستبردار ہو گی جس کے بعد لاشوں اور باقیات کا بھی تبادلہ ہو گا۔
مذاکراتی عمل سے باخبر ایک ذرائع نے بتایا کہ حماس کی جوابی پیشکش میں مستقل سیز فائر کا ذکر نہیں کیا گیا تاہم یہ کہا گیا ہے کہ اس سیز فائر کے دورانیے میں آخری قیدی کی رہائی سے قبل جنگ کے خاتمے کے حوالے سے کوششیں کی جاتی رہیں گی۔
حماس کے سیاسی بیورو کے رکن عزت الریشق نے تصدیق کی کہ قطر اور مصر کے ذریعے یہ پیشکش امریکا اور اسرائیل تک پہنچا دی گئی ہے۔
انہوں نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ ہم مثبت جذبے کے ساتھ اس معاہدے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ ہمارے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کو روکا جا سکے اور مکمل سیز فائر کو یقینی بناتے ہوئے ریلیف کے کام انجام دیے جا سکیں۔
دستاویز کے مطابق ابتدائی 45 دنوں کے دوران تمام اسرائیلی خواتین، بزرگ، بیمار اور 19سال سے کم عمر قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید خواتین اور بچوں کی رہائی یقینی بنائی جائے گی جبکہ اسرائکل اس کے بدلے آبادی والے علاقوں سے اپنی فوج بھی واپس بلائے گا۔
دوسرے مرحلے پر عملدرآمد اس وقت تک شروع نہیں ہو گا جب تک دونوں فریقین مذاکرات کے ذریعے فوجی آپریشن کے خاتمے پر اتفاق نہیں کر لیتے۔
دوسرے مرحلے میں تمام مرد قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے بدلے اسرائیل فوج کے غزہ سے مکمل طور پر انخلا کا مطالبہ کیا جائے گا۔