• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ترکیہ نے اسرائیل سے تمام تجارتی تعلقات منقطع کر دیے

شائع May 3, 2024
2023 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 6.8 ارب  ڈالر تھا۔—فائل فوٹو: رائٹرز
2023 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 6.8 ارب ڈالر تھا۔—فائل فوٹو: رائٹرز

غزہ میں جارحیت کے باعث ترکیہ نے اسرائیل سے تمام تجارتی تعلقات منقطع کر دیے، جب کہ ایران نے بھی اسرائیل کی مدد کرنے پر امریکی اور برطانوی شخصیات پابندی لگا دی۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق ترکیہ کی وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ غزہ میں لوگوں کی بدتر انسانی المیے کی وجہ سے ترکیہ نے اسرائیل سے تمام تجارتی تعلقات منقطع کرتا ہے۔

وزارت تجارت نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ اسرائیل سے کسی قسم کی درآمدات اور برآمدات نہیں کرے گا، غزہ میں جنگ بندی تک اسرائیل سے کوئی تجارت نہیں ہوگی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ترکیہ اپنے نئے اقدامات پر سختی سے عمل در آمد کرے گا جب تک اسرائیلی حکومت انسانی امداد کو بغیر کسی رکاوٹ کے غزہ تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتی۔

یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل کے وزیر خارجہ نے ترک صدر رجب طیب اردوان پر الزام عائد کیا کہ وہ بندرگاہوں کو اسرائیلی درآمدات اور برآمدات کی ہینڈلنگ سے روک کر معاہدوں کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔

اسرائیل کاٹز نے سماجی پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’ایک ڈکٹیٹر کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے، جو ترک عوام اور کاروباری اداروں کے مفادات کو نظر انداز کرتا ہے اور بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کو نظر انداز کرتا ہے۔

کاٹز نے کہا کہ انہوں نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ترکیہ کے ساتھ تجارت کے دوسرے طریقے تلاش کریں، مقامی پیداوار اور مختلف ممالک سے درآمدات پر توجہ دی جائے۔

2023 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 6.8 ارب ڈالر تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے غزہ میں اسرائیلی اقدامات کی مخالفت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

قبل ازیں متحدہ عرب امارات بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔

دوسری جانب ایران نے اسرائیل کی مدد کرنے پر امریکا اور برطانوی شخصیات پر پابندی لگادی ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق پابندیوں میں امریکی و برطانوی اسلحہ ساز اور آئل کمپنیاں بھی شامل ہیں ، امریکی فوجی کمانڈ اور برطانوی وزیر دفاع بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024