امریکا کو خوش کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات میں گڑبڑ کی، فضل الرحمٰن کا الزام
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دعویٰ کیا کہ 8 فروری کے انتخابی نتائج میں ملکی وجوہات کے علاوہ بیرونی اثرات نے بھی اہم کردار ادا کیا، انہوں نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ نے حقیقی مینڈیٹ نہیں دیا کیونکہ امریکا فلسطینی گروپ حماس اور افغان طالبان کے ساتھ ان کی جماعت کے روابط پر ناراض تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو فضل الرحمٰن نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ہمیشہ امریکی ترجیحات کے سامنے جھکنے کا الزام لگاتے ہوئے بتایا کہ انہیں صرف فلسطین کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے اور افغانستان اور پاکستان کو قریب لانے پر سزا دی گئی ہے۔
انہوں نے کراچی میں عوامی اسمبلی کے نام سے نکالی جانے والی ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرا جرم تھا کہ میں نے حماس کی حمایت کی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ میں نے حماس کی قیادت سے نومبر 2023 میں دوحہ میںملاقات کی اور اپنی حمایت کا اعادہ کیا جس پر امریکا ناراض ہو گیا، ایک طرف ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے جو امریکی ترجیحات کے سامنے جھک جاتی ہے اور دوسری طرف مجھے مسلمانوں کی حمایت کرنے پر سزا دی گئی ہے۔
اس کے بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے جنوری میں ہونے والے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل افغانستان کے اپنے دورے کا حوالہ دیا، جس کا مقصد دونوں ممالک کو قریب لانا تھا۔
تاہم، انہوں نے الزام لگایا کہ امریکا صرف اس لیے ناراض ہوا کہ وہ افغان حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں ہماری کوششیں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ کیا میں صرف قومی اسمبلی کا رکن بننے کے لیے مسلمانوں اور عالم اسلام کی حمایت چھوڑ دوں؟ یہ ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے دوبارہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی پارٹی ایسے انتخابات کو قبول نہیں کرے گی جس میں بندوق کی نوک پر نتائج تبدیل کیے گئے ہوں، انہوں نے جیتنے والی جماعتوں پر 8 فروری کے انتخابات میں سودے کے ذریعے مینڈیٹ حاصل کرنے کا الزام بھی عائد کردیا۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ یہ جعلی اسمبلیاں ہیں، یہ جعلی ہیں نہ صرف اس لیے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا ووٹوں کے بکسے تبدیل کیے گئے بلکہ اس لیے بھی کہ سیٹوں کا فیصلہ خرید و فروخت سے ہوا، صوبائی حکومت سے لے کر ایوان صدر تک کا سودا ہوا۔