عرب لیگ کا اجلاس، مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے عالمی کانفرنس بلانے کا مطالبہ
بحرین میں عرب لیگ کی سربراہی کانفرنس کا آغاز ہوا جس میں میزبان بحرین نے غزہ میں جاری جنگ کے حل اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے عالمی کانفرنس بلانے کا مطالبہ کردیا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بحرین کے دارالحکومت منامہ میں 22رکنی عرب لیگ کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا جس سے بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے افتتاحی خطاب کیا۔
عرب لیگ کا یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ اور اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کو تقریباً ساڑھے7 ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور فی الحال جنگ بندی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
حماد بن عیسیٰ الخلیفہ کا کہنا تھا کہ ہم نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن، فلسطینی ریاست کو مکمل تسلیم اور اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت کی منظوری کے لیے بین الاقوامی کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے سربراہی اجلاس کو بتایا کہ حماس میں ہمارے سیاسی حریفوں نے اسرائیل کو غزہ پر جنگ چھیڑنے کا بہانہ فراہم کیا اور 7 اکتوبر کو فلسطینی سرزمین سے حملہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو یکطرفہ فیصلے کے ذریعے کی گئی فوجی کارروائی نے اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر حملے کے لیے مزید بہانے اور جواز فراہم کیے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ کی جنگ کو ایک کھلا زخم قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس جنگ سے پورے خطے کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اور تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا۔
عرب لیگ کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ تشدد اور عدم استحکام کو ختم کرنے کا واحد مستقل راستہ دو ریاستی حل ہے۔
یہ گزشتہ سال نومبر میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والے عرب لیگ کے غیرمعمولی اجلاس کے بعد پہلی ایسی بیٹھک ہے۔
کویت کے تجزیہ کار ظفر العجمی نے کہا کہ نومبر میں عرب رہنماؤں نے اسرائیل کے خلاف اقدامات کی منظوری سے انکار کر دیا تھا لیکن اس بار اس موقف میں تبدیلی کا امکان ہے کیونکہ طویل عرصے سے دو ریاستی حل کے عرب ممالک کے مطالبے کو اب عالمی سطح پر بھی حمایت حاصل ہے۔
ظفر العجمی نے کہا کہ 70 سال قبل اسرائیل کے قیام کے بعد پہلی بار مغربی رائے عامہ فلسطینیوں کی حامی اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خاتمے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل حماس کو تباہ کرنے سمیت اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب لڑائی میں الجھا ہوا ہے۔
اس جنگ جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد ہوا تھا جہاں حماس کی کارروائی میں 1170 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس کارروائی میں حماس نے تقریباً 250 افراد کو بھی یرغمال بنایا اور اسرائیل کے اندازے کے مطابق ان میں سے 128 غزہ میں موجود ہیں۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی فوجی کارروائی اور وحشیانہ بمباری میں کم از کم 35ہزار 272 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ اسرائیلی محاصرے سے خطے میں خوراک کی شدید قلت ہو چکی ہے۔