• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

پریس کانفرس میں کی گئی باتوں پر اب بھی قائم ہوں، فیصل واڈا

شائع May 17, 2024
سینیٹر فیصل واڈا —فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
سینیٹر فیصل واڈا —فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

سینیٹر فیصل واڈا نے سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی پریس کانفرنس کا نوٹس لیے جانے کے حوالے سے کہا ہے کہ میں اپنی پریس کانفرنس پر اب بھی قائم ہوں، میں نے کسی جج کا نام لے کر کوئی بات نہیں کی لیکن اگر آپ مجھ پر پراکسی کا ٹھپہ لگائیں گے تو میں آپ سے شواہد مانگوں گا اور آپ کو دینے پڑیں گے۔

جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل واڈا نے کہا کہ مجھے ایک ایماندار چیف جسٹس کے سامنے جانے کا موقع مل رہا ہے اور ارشد شریف قتل کیس میں بڑی فائلوں سمیت دیگر ہیر پھیر کی معلومات کو ان کے پیش کروں گا جس کو دیکھ کر وہ بھی خوش ہوں گے ایک پاکستانی اتنا آگے بڑھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی مجھے میرے نام کے ساتھ دکھائے کہ فیصل واڈا کسی کی پراکسی ہے، کوئی جج اگر مجھ پر پراکسی کا کھلم کھلا الزام لگائے گا تو اس کو ثابت کرنا پڑے گا کیونکہ میں اپنی ساکھ اور عزت پر گردن تو کٹوا دوں گا لیکن پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر تحریک انصاف کے رؤف حسن سمیت دیگر نامور شخصیات چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس عامر فاروق کو ٹاؤٹ(مخبر) کہہ رہے ہیں تو ان پر سوموٹو نہیں ہے لیکن اگر فیصل واڈا نے جسٹس بابر ستار کی تقرری پر سوال اٹھایا ہے جس میں ان کی اہلیت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا تو اس پر سوموٹو لے لیا گیا۔

سینئر سیاستدان نے کہا کہ میں نے پریس کانفرنس میں جو کہا اس پر ویسے ہی کھڑا ہوں، میں نے کہا کہ اگر کوئی میری پگڑی اچھالے گا تو ہم اس کی فٹبال بنا دیں گے، میں ایسا ہی آدمی ہوں، آپ مجھے عزت دیں گے تو میں ڈبل عزت دوں گا، آپ ممجھ سے بدمعاشی کریں گے تو میں ڈبل بدمعاشی کروں گا، میں منافق نہیں ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے عمومی طور پر ایک بات کی کہ میری پگڑی اچھالیں گے تو میں فٹبال بنادوں گا، میں نے کسی جج کا نام لے کر کوئی بات نہیں کی، جج حضرات نے کوئی پگڑی اچھالی ہے تو وہ اس کو ذاتیات پر لے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر میں نے بابر ستار کی تقرری پر سوال کردیا کہ قانونی دستاویز کہاں ہے تو کیا میں نے کوئی گناہ کردیا، ایک سوال کرنے پر آپ مجھے بھٹو صاحب کی طرح پھانسی دینا چاہتے ہیں تو میں حاضر کروں گا، اگر آپ مجھ پر پراکسی کا ٹھپہ لگائیں گے تو میں آپ سے شواہد مانگوں گا اور آپ کو دینے پڑیں گے، اگر الزام لگائیں گے تو آپ کو ثبوت بھی دینے پڑیں گے، جو قانون آپ کے لیے ہو گا وہی میرے لیے بھی ہو گا، وہی قانون جج اور جرنیل کے لیے بھی ہوں گے۔

فیصل واڈا نے کہا کہ مجھے اگر پانی غلطی پر کسی کمزور یا چپڑاسی سے بھی معافی مانگنی پڑی تو میں سب کے سامنے معافی مانگوں گا، آپ کو یاد ہو گا کہ فوجی بوٹ رکھنے پر مجھ پر عمران خان سمیت پورے پاکستان کے سب سے تگڑے لوگوں کا دباؤ تھا لیکن میں نے کہا تھا کہ میں معافی نہیں مانوں گا کیونکہ میں نے کبھی فوج پر اٹیک نہیں کیا تھا۔

پروگرام میں بوٹ لانے اور اس پر معافی مانگنے کے لیے دباؤ کے حوالے سے سوال پر تحریک انصاف کے سابق رہنما نے کہا کہ عمران خان اور ادارے کے تگڑے لوگوں نے مجھ پر معافی لانگنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا تھا لیکن میں نے کہا تھا کہ میں معافی نہیں مانگوں گا اس لیے کیونکہ میں نے فوج پر اٹیک کیا ہی نہیں تھا، اگر انہیں اٹیک لگا ہے تو یہ ان کی غلطی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ پر جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان نے دباؤ ڈالا تھا تو انہوں نے کہا کہ جی سر دباؤ ڈالا تھا، اگر غلط نہیں ہوا تو سر کٹوا دوں گا اور غلط ہوا تو معافی مانگ لوں گا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے فیصل واڈا کی جانب سے بدھ کو کی گئی پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس لے لیا تھا۔

سینیٹر فیصل واوڈا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایاتھا اور کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واڈا کا کہنا تھا کہ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، 15 روز ہوگئےجواب نہیں آیا، 19 اے کے تحت مجھے جواب دیا جائے، بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی تحریری طور پر لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے آرڈر دیا کہ ہر پاکستانی بات کسی سے بھی پوچھ سکتا ہے تو پاکستانی تو دور کی بات ایک سینیٹر کو جواب نہیں مل رہا تو اب ابہام بڑھ رہا ہے، شک و شبہات سامنے آرہے ہیں کہ اس کے پیچھے منطق کیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024