• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

’عدلیہ نے ہمیشہ نظریہ ضرورت کے تحت سیاسی اقدار اور جمہوریت کا سر کچلا‘

شائع May 22, 2024
فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ نے ہمیشہ نظریہ ضرورت کو آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی اقدار، سیاستدانوں اور جمہوریت کو کچلا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنانے والے نامور سیاستدانوں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونے کے باوجود گزشتہ روز چند قانون سازوں نے بھی عدلیہ پر حملہ کرنے کا استحقاق استعمال کیا، جب کہ سینیٹر فیصل واڈا نے سپریم کورٹ کے موجودہ جج کے خلاف تحریک استحقاق پیش کی۔

گزشتہ ہفتے ایک سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے سینیٹر فیصل واڈا کے عدلیہ مخالف بیان پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ججز کو پراکسیز کے ذریعے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

اپنے بیان کی وجہ سے توہین عدالت کے نوٹس کا سامنا کرنے والے سینیٹر نے سپریم کورٹ کے جج کے ریمارکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس سے نہ صرف میری بلکہ ایوان کے وقار کو بھی نقصان پہنچا۔

سینیٹر شیری رحمٰن کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے فیصل واڈا نے کہا کہ میں جسٹس اطہر من اللہ کے خلاف تحریک استحقاق پیش کررہا ہوں، اب یہ ایوان چیئرمین یا کمیٹی پر منحصر ہے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔

فیصل واڈا نے دعویٰ کیا کہ جج نے بغیر کسی ثبوت کے مجھے پراکسی کہا اور یہ اصطلاح ان کے خلاف تعصب کی وجہ سے استعمال کی گئی۔

بعد ازاں، پریس کانفرنس کے دوران سابق وفاقی وزیر نے سپریم کورٹ کے جج سے مطالبہ کیا کہ وہ میرے متعلق اپنے ریمارکس کے ثبوت پیش کریں، میں اپنے آج بھی اپنے الفاظ پر قائم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب کوئی شخص کچھ غلط کہتا یا کرتا ہے تو عدالتیں اسے طلب کرلیتی ہیں لیکن جب کوئی جج غلط بیانی کرتا ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے فیصل واڈا کے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ’آئین کی خلاف ورزی کرنے والے کو ہار پہنانے‘ کی تاریخ رہی ہے، جب کہ عدلیہ نے ہمیشہ نظریہ ضرورت کو آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی اقدار، سیاستدانوں اور جمہوریت کو کچلا ہے۔

سینیٹر نے کہا ’انہیں کس نے یہ حق دیا کہ وہ کسی پر سسیلین مافیا، گاڈ فادر یا پراکسی کا لیبل لگائیں؟‘ انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 62 اور 63 صرف قانون سازوں کے لیے ہے، آج تک اس کا اطلاق کتنے ججز پر ہوا ہے؟

ججز کی دوہری شہریت

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اعلیٰ عدلیہ میں دوہری شہریت رکھنے والے ججز کی تقرری پر پابندی کا آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرایا گیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن نور عالم کان کی جانب سے جمع کروائے گئے بل میں آئین کے آرٹیکل 177، 193 اور 208 میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024