حکومت کا صنعتی شعبے کو بجلی کی طلب بڑھانے کیلئے مراعات دینے پر غور
سالانہ ٹیرف ری بیسنگ میں 25 فیصد اضافے کی درخواست پر حکومت صنعتی شعبے کو ایک مراعاتی پیکج دینے پر غور کررہی ہے جو بجلی کی طلب کو بڑھانے اور معاشی ترقی کو سہارا دینے کے لیے پاور سیکٹر کی دیگر اصلاحات کے حصے کے طور پر ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین وسیم مختار کی زیر صدارت ایک سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی، دوران سماعت مختلف صنعتی اور صارفین کے گروپوں کے نمائندوں (جن میں اکثریت کراچی کی تھی)، نے ٹیرف میں اضافے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے ہی شٹ ڈاؤن کے راستے پر ہیں۔
یہ سماعت یکم جولائی 2025 سے لاگو ہونے والے بجلی ٹیرف میں ری بیسنگ کے لیے پاور پرچیز پرائس (پی پی پی) میں 25 فیصد اضافے پر ہوئی تاکہ پاور کمپنیوں کے لیے مالی سال 25 میں تقریباً 40 کھرب روپے کی آمدنی کی ضرورت کو محفوظ بنایا جا سکے۔
پاور ڈویژن کی سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی جانب سے پاور کمپنیوں کی جانب سے پیش کردہ سات مختلف منظرناموں کے تحت، مالی سال 25 کے لیے مجموعی پاور پرچیز پرائس میں سالانہ اوسط ٹیرف میں 4.40 روپے سے 6.51 روپے فی یونٹ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
سی پی پی اے اور پاور سسٹم آپریٹر کے نمائندوں نے ٹیرف ری بیسنگ کی ضرورت کے مختلف عوامل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس وقت مختلف اصلاحات کررہی ہے جس میں صنعتی شعبے کے لیے بجلی کی طلب کو بحال کرنے کے لیے ایک مراعاتی پیکج بھی شامل ہے۔
سماعت میں شریک ایک نمائندے نے کہا کہ خصوصی صنعتی ٹیرف کراس سبسڈی کے عنصر کو نشانہ بنائے گا جس کی وجہ سے رواں مالی سال کے دوران صنعت کو تقریباً 434 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔
ایک اور نمائندہ نے کہا کہ اس اصلاحاتی پیکج پر ایک ہفتے یا اس سے زیادہ کے دوران عمل ہوسکتا ہے، انہوں نے اس مرحلے پر دیگر اصلاحاتی اقدامات میں جانے سے معذوری کا اظہار کیا۔
وسیم مختار نے کہا کہ ریفرنس پاور پرچیز پرائس مجموعی ٹیرف کا 90 فیصد ہے اور اگلے سال کے لیے ٹیرف ری بیسنگ کو حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے تاکہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں قیمتوں کو کم سے کم رکھا جا سکے، یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ ٹیرف ری بیسنگ بے وقوفی سے کی گئی تھی۔
دوسری جانب، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری اور اسٹیل پروڈیوسرز کے نمائندوں نے بجلی کی قیمتوں پر افسوس کا اظہار کیا، نیپرا اور سی پی پی اے حکام تقریباً اس بات پر متفق تھے کہ توانائی کی زیادہ قیمتوں سے بجلی کی طلب متاثر ہو رہی ہے اور کھپت کم ہو رہی ہے، جب کہ صارفین کی کم قوت خرید کی وجہ سے صنعتی و کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں، جس سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔
ایک تاجر نے دعویٰ کیا کہ کراچی میں 2300 سے زائد صنعتی یونٹس بند ہو چکے ہیں اور دیگر بند ہونے کے دہانے پر ہیں کیونکہ صارفین ادائیگی کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں اور پیداواری لاگت بڑھ چکی ہے، انہوں نے استدعا کی کہ صنعت سے صرف اصل اوسط ٹیرف وصول کیا جانا چاہئے ۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 6 ہزار میگا واٹ سولر پینل کی درآمدات کے دعووں کے برعکس، کل نیٹ میٹر کی صلاحیت 1900 میگا واٹ سے زیادہ نہیں تھی، جس میں سے گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً ایک ہزار میگا واٹ کا اضافہ ہوا ہے، حالانکہ نیٹ میٹرنگ سولر پالیسی 2015 سے لاگو ہے۔
نیپرا کے ایک ماہر نے بتایا کہ میٹر یا آف گرڈ کے پیچھے 85 فیصد سے زیادہ سولرائزیشن ہو رہی تھی اور نیٹ میٹرنگ 15 فیصد سے زیادہ نہیں تھی، کیونکہ کچھ صنعتی یونٹس اور زیادہ تر سیمنٹ پلانٹس نے اپنے چھوٹے سولر پاور پلانٹس لگائے تھے اور وہ دوسروں کو بھی فراہم کر رہے تھے۔