گزشتہ شکستوں سے سبق سیکھا نہ کرکٹ
جمعرات کی دوپہر ڈیلس میں سورج اتنی آگ نہیں برسا رہا تھا جتنی تپش پاکستانی شائقین کو قومی ٹیم کی شکست سے محسوس ہوئی۔ جیت کاعزم لیے پاکستان ٹیم امریکا پہنچتے پہنچتے اس حال کو پہنچ گئی کہ امریکا جیسی نچلے درجے کی ٹیم سے اپنے افتتاحی میچ میں شکست سے دوچار ہوگئی۔
اگرچہ شکست کے آثار تو انگلینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف شکستوں نے ظاہر کردیے تھے لیکن سب پُرامید تھے کہ پاکستانی ٹیم نے سبق سیکھ لیا ہوگا مگر وہی ڈھاک کے تین پات نہ سبق سیکھا اور نہ ہی کرکٹ۔
حد تو یہ کہ کوالیفائنگ راؤنڈ میں ناکامی کے باوجود میزبان ملک ہونے کی حیثیت سے ٹورنامنٹ میں شامل ہونے والی ٹیم امریکا نے اس ٹیم کو شکست دی جسے چیمپیئن بننے کی دوڑ میں فیورٹ سمجھا جارہا تھا۔ وہ ٹیم جس کے لیے چیئرمین کرکٹ بورڈ بڑے بڑے دعوے کررہے تھے، وہی ٹیم اپنے پہلے ہی میچ میں چاروں خانے چت ہوگئی۔ بابر اعظم جو اپنے تئیں بہت کرکٹ کی سمجھ رکھتے ہیں، وہ آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ کرکٹ باتوں سے نہیں گیند اور بلے سے کھیلی جاتی ہے۔
ٹیم جس ڈگر پر چل پڑی ہے، اس سے ایسے ہی نتائج سامنے آئیں گے۔ ورلڈ کپ جیسے میگا ایونٹ سے قبل ٹیم 25 ڈالرز میں آٹو گراف اور 100 ڈالرز میں میٹ اپ بیچ رہی تھی۔ یعنی پوری ٹیم کی توجہ پیسے کمانے پر تھی جوکہ کھیل سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔
اس پورے معاملے میں سینئر منیجر وہاب ریاض آگے آگے نظر آئے۔ کس کا کتنا حصہ ہے اور کہاں کہاں منافع جائے گا یہ تو نہیں معلوم لیکن 18ویں نمبر کی ٹیم سے شکست کھا کر قومی کرکٹ ٹیم نے پوری قوم کو مایوس کردیا ہے۔ اس شکست کا جتنا مذاق پڑوسی ملک میں بنایا جارہا ہے، اس کی خبر شاید بورڈ اور حکومت کو ہے ہی نہیں۔
ڈیلس کی شکست میں جتنا حصہ حارث رؤف، افتخار احمد اور اعظم خان نے ڈالا اتنا ہی بابر اعظم بھی اس شکست کے ذمہ دار ہیں جن کی خراب کپتانی کی وجہ سے میچ ہاتھ سے نکلا کیونکہ جب ایک باؤلر زیادہ تر فل پچ گیند کرواتا ہے تو اس پر لانگ آف نہ لینا حد درجہ حماقت تھی۔
ڈیلس میں جس خفت اور توہین نے پاکستان ٹیم کو اپنے جال میں جکڑا، اس نے اگلے میچز کے لیے پاکستان ٹیم کے حوالے سے امیدیں ختم کردی ہیں۔ اس شکست کو پاکستانی کرکٹ شائقین برسوں بھلا نہیں سکیں گے۔
اگلی منزل نیویارک
پاکستان ٹیم کی اگلی منزل اب نیویارک ہے جہاں بھارتی ٹیم ہاتھوں میں تیر و تبر لیے ہمارا انتظار کررہی ہے۔
نیویارک جسے ’آسمان کا شہر‘ بھی کہتے ہیں، آئی سی سی نے ایک مصنوعی اسٹیڈیم بناکر اسے کرکٹ کا مرکز بنانے کی کوشش کی ہے۔ بلند وبالا فلک شگاف عمارتوں کے درمیان نیویارک کا کرکٹ گراؤنڈ وہاں کے باسیوں میں کتنا معروف اور مقبول ہے اس کا اندازہ ہمیں ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھ کر ہوا۔ ہم نے ٹیکسی ڈرائیور سے لانگ آئی لینڈ کے کوئینز علاقے سے کرکٹ گراؤنڈ جانے کے لیے کہا تو اس نے نفی میں سر ہلادیا کہ وہ ایسے کسی اسٹیڈیم سے واقف نہیں۔ اس کی بات بھی درست تھی کیونکہ کرکٹ اسٹیڈیم راتوں رات بنا ہے۔ نساؤ کاؤنٹی کے سرسبز میدان میں تازہ ترین تعمیر شدہ کرکٹ گراؤنڈ کی خاص پہچان آئزن ہاور پارک ہے جس کے قلب میں گراؤنڈ واقع ہے ورنہ کرکٹ تو یانکیز کے لیے اجنبی لفظ ہے۔
آئی سی سی نے جب ورلڈ کپ میچ کے لیے نیویارک کا انتخاب کیا تھا تو امریکا کرکٹ ایسوسی ایشن بھی حیران ہوگئی تھی کیونکہ نیویارک میں نہ کوئی معیاری گراؤنڈ ہے اور نہ اتنی جگہ لیکن ضدی مزاج آئی سی سی نے دونوں ہاتھ سے پیسہ لٹا کر ایک عارضی بدنما گراؤنڈ زبردستی بنادیا اور پھر ایسی پچ جو تیار کہیں اور ہوئی، وہ یہاں لاکر بچھا دی گئی۔ اس پچ پر جتنے بھی میچ کھیلے گئے، ٹیموں نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
آئی سی سی کا دعویٰ ہے کہ 34 ہزار افراد کی بیٹھک کے لیے موزوں نساؤ گراؤنڈ ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ اسٹیڈیم ہے اور اس کا پورا خرچہ صرف ایک میچ کی آمدنی سے نکل جائے گا۔ 9 جون کی صبح جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی تو ٹکٹس اور اشتہاری بورڈز سے گراؤنڈ کی تعمیر کا خرچہ پورا ہو ہی جائے گا۔
امریکا میں بھارتی شہریوں کی کثیر تعداد آباد ہے اور اکثریت امیر طبقے سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اس میچ کا ٹکٹ حاصل کرنا ہر ایک کا خواب تھا، چاہے اس کے لیے کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ بلیک مارکیٹ میں 200 ڈالرز کے ٹکٹ کی قیمت 20 ہزار ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔ آئی سی سی ٹکٹس کی فروخت میں ہمیشہ لاپروائی برتتا ہے جس سے شائقین کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نیویارک گراؤنڈ کی پچ پر اس قدر تنقید ہورہی ہے کہ آئی سی سی کو اپنا وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔ انگلینڈ کے مائیکل وان نے تو اسے تاریخ کا سب سے بھونڈا مذاق قرار دیا، دوسری طرف ناصر حسین اور مائیکل ایتھرٹن جیسے سنجیدہ ماہرین بھی ایسی پچ کو زیادتی کہہ رہے ہیں۔ ساؤتھ افریقہ جس نے اس پچ پر پہلا میچ کھیلا، اس کے کپتان نے تو اسے کرکٹ کی خودکشی قرار دیا۔ بھارتی کپتان روہیت شرما جو اپنی بذلہ سنجی کے لیے مشہور ہیں انہوں نے اسے ’پانی پر کھیلنا‘ کہہ دیا۔
نیویارک گراؤنڈ کی پچ پر تنقید
ڈراپ ان پچ کے خیال نے آسٹریلیا سے جنم لیا تھا جہاں اسٹیڈیمز کے کثیر الجہت ہونے کے باعث پچ کو نکال لیا جاتا ہے اور دوسری تقریبات کے لیے میلبرن برسبین اور ایڈیلیڈ استعمال ہوتے ہیں۔ اس خیال کو دیگر ممالک نے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی۔ تاہم آئی سی سی نے پہلی مرتبہ اسے نیویارک میں آزمایا ہے۔ ایڈیلیڈ کے کیوریٹر نے فلوریڈا کے گرم موسم میں پورٹیبل پچ تیار کی جسے ٹرک کے ذریعے نیویارک پہنچایا گیا۔
پچ پر پہلا میچ سری لنکا اور ساؤتھ افریقہ کے درمیان ہوا تو لگا کہ جیسے پچ نے بلے بازوں کے ہاتھ باندھ دیے ہوں۔ دونوں کے مختصر اسکور نے پچ کی بے اعتنائی ظاہر کی۔ دوسرا میچ جب بھارت اور آئرلینڈ کے درمیان ہوا تو پچ میں ڈبل پیس تھا جس کے باعث گیند بلے پر نہیں آرہی تھی۔ پچ کا سب سے اہم مسئلہ اس کی مٹی کا گراؤنڈ کی مٹی سے ملحق نہ ہونا ہے جس کے باعث مٹی میں کہیں کہیں ڈھیریاں بن گئیں اور کہیں خلا۔ ایک اچھی پچ کم ازکم دو سال تک رول کی جاتی ہے جب کہیں اس میں یکساں باؤنس آتا ہے۔
اگرچہ آئی سی سی کے کیوریٹرز اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔
بھارتی ٹیم کہاں کھڑی ہے؟
بھارت کی ٹیم ہر عالمی مقابلے میں فیورٹ ہوتی ہے اور سب کی نظریں اسی پر ہوتی ہیں۔ گزشتہ ورلڈ کپ اور ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل کھیلنے والی بھارتی ٹیم کو دونوں دفعہ آسٹریلیا نے دھول چٹائی تھی حالانکہ میچ سے قبل تمام ماہرین کی نظر میں بھارت جیت کے سنگھاسن پر نظر آرہی تھی لیکن ساؤتھ ایمپٹن اور احمد آباد دونوں ہی شکست کے گواہ بن گئے۔
موجودہ ٹیم اگرچہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور توانا نظر آتی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر چند دنوں قبل ختم ہونے والے آئی پی ایل کے کسی بھی شہسوار کو بھارتی سیلکٹرز نے ٹیم میں شامل نہیں کیا۔ ٹیم میں وہ تمام کھلاڑی شامل ہیں جو آئی پی ایل میں معمولی کارکردگی دکھا پائے۔ سیلکٹرز نے سب سے زیادہ وکٹ لینے والے ہرشل پٹیل اور سب سے زیادہ رنز کرنے والے رتو راج گائیکواڈ کو ٹیم میں شامل نہیں کیا ہے جبکہ فاتح ٹیم کولکتہ کے رنکو سنگھ تک اسکواڈ کا حصہ نہیں۔
آئی پی ایل میں سب سے زیادہ رنز بنانے والوں میں صرف ویرات کوہلی ہی واحد کھلاڑی ہیں جو ٹیم کا حصہ ہیں۔ ٹیم کی جان تو کوہلی ہی ہیں لیکن روہیت شرما اور رشبھ پنٹ وہ کھلاڑی ہیں جن کی برق رفتار اننگز کچھ بھی کرسکتی ہے۔ بھارت نے اوپننگ میں نیا تجربہ کیا ہے اور کوہلی اب بطور اوپنر کھیل رہے ہیں۔ اگرچہ وہ آئرلینڈ کے خلاف جلدی آؤٹ ہوگئے تھے لیکن وہ بھرپور فارم میں ہیں جبکہ مڈل آرڈر میں سوریا کمار یادو اور ڈوبے ہوں گے۔ سوریا کمار کی جارحانہ بیٹنگ تو ہم دیکھتے رہتے ہیں لیکن اگر ہارڈک پانڈیا اور رشبھ پنٹ نے بھی اچھا کھیل پیش کیا تو پاکستان ٹیم کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
اگرچہ آج کل ہارڈک پانڈیا کی فارم خراب ہے جبکہ ممبئی انڈیئنز کی خراب کپتانی نے ان پر بہت دباؤ ڈال رکھا تھا لیکن وہ اور رویندر جدیجا آل راؤنڈرز کی حیثیت سے ٹیم کا حصہ ہوں گے اور خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ بھارت، نیویارک کی پچ کا مزاج دیکھتے ہوئے سراج کو بھی میدان میں اتار سکتا ہے جبکہ جسپریت بمراہ اور ارشدیپ سنگھ دیگر فاسٹ باؤلرز ہوں گے۔ ارشدیپ نے گزشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پہلی گیند پر بابر اعظم کو آؤٹ کرکے شہرت حاصل کی تھی۔
بھارت بہ ظاہر زیادہ مضبوط اور متوازن نظر آرہی ہے لیکن اس کا اصل نمونہ ہم میچ کے دن دیکھیں گے کہ جہاں بھارت کی اصل طاقت اس کی بیٹنگ ہوگی جس میں ورائٹی بھی ہے اور گہرائی بھی۔
پاکستان کی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟
پاکستان کے لیے یہ میچ انتہائی اہم ہے۔ پاکستان ایک شکست کے بعد گروپ میں دھڑام سے نچلے درجے پر آچکا ہے اور اب اس کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر پاکستان بھارت کو شکست دے دیتا ہے تو وہ گروپ میں واپس آجائے گا بہ صورت دیگر پاکستان کو کینیڈا اور آئرلینڈ سے جیت کے ساتھ ساتھ امریکا کی شکست کے لیے دعا کرنا ہوگی۔ امریکا جس کے 4 پوائنٹس ہیں، ایک اور جیت اسے ویسٹ انڈیز کی فلائٹ میں بٹھادے گی جبکہ پاکستان کو لاہور کی۔
بھارت سے میچ ہمیشہ روایتی گرم جوشی سے بھرپور اور کانٹے دار ہوتا ہے۔ پاکستان نے اب تک آئی سی سی ایونٹس میں صرف دو بار بھارت کو شکست دی لیکن اس دفعہ پاکستان بہت زیادہ پُر امید تھی لیکن امریکا سے شکست نے تمام دعوے کھوکھلے ثابت کردیے ہیں۔
بھارت کے خلاف میچ سب سے اہم ہے لیکن کھلاڑی اور ہماری مینجمنٹ شاید اس سے زیادہ دوسرے میچز پر تیاری کررہے ہیں تاکہ سپر 8 مرحلے میں پہنچ جائیں کیونکہ تاریخ کے مطابق پاکستان آئی سی سی ایونٹس میں ایک دفعہ کے علاوہ ہمیشہ شکست سے دوچار ہوا ہے۔ اس لیے ٹیم کو اپنی توانائی درست جگہ لگانا چاہیے۔ پاکستان اس میچ کے لیے بہت سادہ حکمت عملی اختیار کررہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر پاکستان ٹاس جیت جاتا ہے تو پہلے باؤلنگ کرکے ایک ہدف طے کرکے کھیلا جائے۔
جبکہ پاکستان فیصلہ کرچکا ہے کہ اوپننگ بابر اور رضوان ہی کریں گے جبکہ عثمان خان ون ڈاؤن کھیلیں گے۔
عثمان ڈیلس میں ناکام ہوئے لیکن انہوں نے اوول میں انگلینڈ کے خلاف بہتر بیٹنگ کی تھی۔ فخر زمان چوتھے نمبر پر اور افتخار احمد پانچویں پر کھیلیں گے۔ شاداب خان جو ڈیلس میں بہتر فارم میں نظر آئے، وہ چھٹے نمبر پر کھیلیں گے جبکہ پاکستان کے لیے سب سے اہم فیصلہ ابرار احمد کی شمولیت ہوگی۔
گزشتہ میچز میں نیویارک کی پچ پر ڈبل پیس نے سب کو ششدر کردیا۔ یہ زمان خان کے لیے آئیڈیل پچ ہے۔ تاہم پیس اٹیک میں پاکستان کے نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی، محمد عامر اور حارث رؤف ہوں گے۔ پچ پر ڈبل پیس ہونے کے باعث عامر کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔
امریکا سے شکست کے باعث شاید نیویارک میں اعظم خان کی جگہ صائم ایوب ٹیم کا حصہ ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ کس پوزیشن پر بلے بازی کریں گے۔ ممکن ہے عثمان خان نیچے کھیلیں اور صائم ایوب ون ڈاؤں آئیں۔ پاکستان کو عماد وسیم کے نہ ہونے سے پریشانی کا سامنا ہے، اگر وہ فٹ ہوگئے تو صائم کی جگہ عماد وسیم ٹیم کا حصہ ہوں گے۔
حرف آخر
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی روح چوکے چھکے ہیں لیکن موجودہ ورلڈ کپ میں ابھی تک اس کا رنگ نظر نہیں آرہا ہے۔
پاک-بھارت میچ میں سب کی نظریں فخر زمان اور رشبھ پنٹ پر ہوں گی۔ دونوں میں فلک شگاف شاٹ لگانے کی زبردست صلاحیت ہے۔ فخر زمان کی قسمت نے اگر ساتھ دیا تو مرد میدان بن سکتے ہیں، جبکہ بدقسمتی سے ان کی اصل بیٹنگ پوزیشن پر قبضہ ہوچکا ہے اور اب وہ مڈل آرڈر کا خلا پُر کررہے ہیں۔
پٹاخے تو دونوں ممالک کے تیار رہتے ہیں لیکن پاکستان کے چلتے نہیں بلکہ رکھے رہ جاتے ہیں۔ دونوں کے درمیان ہر ’ڈو اور ڈائے‘ ہوتا ہے لیکن امریکا سے شکست کے بعد یہ گروپ میچ پاکستان کے لیے فیصلہ کن بن چکا ہے۔
اگر دونوں ٹیموں کو دیکھتے ہوئے پیش گوئی کی جائے تو بھارتی ٹیم مضبوط نظر آرہی ہے لیکن پاکستان ٹیم کو اپنی لاابالی کیفیت کے باعث چھپے رستم کہا جاتا ہے جو کسی بھی وقت بازی پلٹ سکتی ہے۔
دریائے ہڈسن کے کنارے آباد نیویارک جو برسوں سے دنیا کی قسمت کا فیصلہ کررہا ہے، اب کرکٹ میں بھی راجدھانی قائم کرنے کی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔
دل تھام لیجیے اور تیار ہوجائیں ایک ایسے مقابلے کے لیے جس میں چاروں طرف رنگ و بو کے ساتھ شور وغل کا سیلاب ہوگا۔ نارنجی اور نیلی شرٹس کے جمگھٹے میں سبز ہلالی پرچم بھی لہرارہے ہوں گے۔ اگر ایک طرف جے ہند تو دوسری طرف دل دل پاکستان کے نعرے نغمے اور گیت ہوں گے۔ ایسے میں کون میدان سے فاتح بن کر نکلے گا اور کون سر جھکا کر چلا جائے گا، اس کا فیصلہ اتوارکو ہوگا۔
لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔