’آج کے سینئر تجزیہ کار ماضی میں بھارت سے اسی طرح ہارتے تھے‘
نیویارک کے نساؤ کاؤنٹی گراؤنڈ میں اتوار کو پاکستان کرکٹ کے ساتھ جو سانحہ پیش آیا اس سے پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہر شخص اپنی بساط اور اوقات کے مطابق تبصرے کی صورت میں اپنی شکایات پیش کرتا نظر آرہا ہے۔ سبزی والے سے لے کر ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہوئے خود ساختہ تجزیہ کاروں تک، سب ہی ملکی مسئلہ کو چھوڑ کر اتوار کے میچ پر اپنا قیمتی تکنیکی تبصرہ پیش کررہے ہیں۔
کرکٹ کی سمجھ بوجھ سے عاری یہ تجزیہ کار اس شکست کے پردے میں چیئرمین کرکٹ بورڈ محسن نقوی سے اپنی عناد نکال رہے ہیں۔ جن جن کو بھی راولپنڈی سے آشیرواد ملنے کی امید ہے وہ چیئرمین بننے کے لیے پر تول رہے ہیں جبکہ جنہیں موجودہ حکومت سے عناد ہے وہ شکست کو کسی پابندِ سلاسل کی مظلومیت سے جوڑ رہے ہیں لیکن سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ٹیم کی شکست میں چیئرمین پی سی بی کی کوئی غلطی نہیں۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا قومی ٹیم کو یہ شکست پہلی دفعہ ہوئی ہے؟
مختصر ہدف کے تعاقب میں پاکستان بیٹنگ کا یوں بکھر جانا اور داغ مفارقت دے جانا تو خاندانی روایات کی طرح ہے کہ جب تک ہر چند سال کے بعد نہ ہوں تو زندگی بے کار سی لگتی ہے۔ شاید یہ دکھ اس لیے زیادہ محسوس ہورہا ہے کیونکہ شکست روایتی حریف مگر خود سے سو گنا بڑے ملک بھارت کے خلاف ہوئی ہے۔ مگر رخ جمال پر اگر تیوریاں نہ چڑھیں تو ہم آپ کو اسی بھارت کے خلاف ایک اور میچ کا حال بیان کرسکتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 22 مارچ 1987ء کو شارجہ میں ایک روزہ میچ کھیلا گیا تھا۔ عمران خان کی تباہ کن باؤلنگ نے بھارت کو 126 پر آؤٹ کردیا۔ عمران خان نے صرف 14 رنز کے عوض 6 کھلاڑی آؤٹ کیے لیکن پاکستان کی نامور بیٹنگ جس میں جاوید میانداد، رمیز راجا اور سلیم ملک جیسے آج کے بہترین ناقدین شامل تھے، کچھ نہ کرسکے اور پوری ٹیم 87 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ جاوید میانداد نے صفر کا کارنامہ انجام دیا۔ اس میچ کے بعد سلیم یوسف کے بقول کپتان عمران خان نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کرلیا تھا اور ہفتوں تک ساتھی کھلاڑیوں سے بات نہیں کی حالانکہ موصوف خود بھی صفر پر آؤٹ ہوئے تھے۔ ایک ٹی وی چینل پر سلیم ملک جس طرح عماد وسیم پر تنقید کررہے تھے کیا انہیں اس میچ میں خود اپنی کارکردگی یاد ہے؟
اسی طرح ایک چینل پر بیٹھ کر یونس خان اور مصباح الحق، یونس خان اور جدید فکسنگ کے ہیرو سلمان بٹ بابر اعظم کو جس انداز میں ہدف تنقید بنارہے تھے انہیں بھی ان کے زمانے کا ٹیسٹ میچ یاد دلادیتے ہیں۔
جب 2010ء میں آسٹریلیا کے خلاف سڈنی ٹیسٹ میں پاکستان کو جیت کے لیے 176 رنز کا ہدف ملا۔ اس تاریخی فتح کو یقینی بنانے کے لیے محمد آصف نے 6 وکٹیں لی تھیں لیکن سلمان بٹ سمیت کوئی بھی بلے باز وکٹ پر رک نہ سکا اور پوری ٹیم 139 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ آج کے بہترین ناقد مصباح الحق نے صفر کا کارنامہ انجام دیا تھا۔
اسی طرح 2009ء میں یونس خان کی کپتانی میں پاکستان کو گال ٹیسٹ میں دوسری اننگز میں 168 رنز کا آسان ہدف ملا جو پاکستان پورا نہ کرسکا۔ پوری ٹیم 117 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔ شعیب ملک نے صفر کا کارنامہ انجام دیا تھا۔
ٹی ٹوئنٹی میں پسپائی
پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی میں مختصر ہدف دیکھ کر پسپائی تو مشہور ہوچکی ہے۔ ماضی میں اکثر مخالف ٹیمیں جلدی آؤٹ ہوجاتی تو مطمئن رہتیں کہ پاکستان کے لیے یہ ہدف بھی بہت مشکل ہے حالانکہ سب کچھ پاکستان کی موافقت میں ہوتا لیکن پھر بھی ٹیم ڈھے جاتی۔
پاکستان کا سب سے کم اسکور 60 رنز ہے جو اس نے 2013ء جوہانسبرگ میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنایا۔ تاہم یہ میچ 10 اوورز تک محدود تھا اس لیے ہماری یاداشتوں سے باہر ہے۔
لیکن باقاعدہ پوری 20 اوورز کی اننگز کا سب سے کم اسکور 99 ہے جو پاکستان نے 2021ء میں زمبابوے کے خلاف بنایا جب اسے 119 رنز کا ہدف ملا تھا۔ اس میچ میں بھی اوپنرز بابر اعظم اور محمد رضوان تھے اور مڈل آرڈر میں ناقد محمد حفیظ تھے لیکن پاکستان ایک غیر معیاری باؤلنگ کا سامنا نہ کرسکا۔
پاکستان کو دوسرا سب سے کم ہدف تو نیویارک میں ہی ملا لیکن اس سے کچھ زیادہ 128 کا ہدف 2010ء میں آسٹریلیا کے دورے کے دوران میلبرن میں ملا تھا۔ شعیب ملک کی کپتانی میں پاکستان صرف 125 رنز ہی بنا سکا حالانکہ ٹیم بہت مضبوط تھی اور تازہ تازہ ورلڈکپ جیت کر آئی تھی لیکن آج کے زبردست ناقد اس دن اتنا مختصر ہدف بھی عبور نہ کرسکے حالانکہ پچ بہت اچھی اور ہموار تھی۔
پاکستان کرکٹ کی بدترین یادوں میں گزشتہ ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں زمبابوے کا میچ کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔ اکتوبر 2022ء میں پاکستان، بھارت سے پہلا میچ ہارنے کے بعد اپنی گروپ پوزیشن بچانے کی جدوجہد میں تھی کہ اسے زمبابوے جیسی کمتر درجے کی ٹیم نے ایک مختصر ہدف بھی پورا کرنے نہیں دیا۔
بابر اعظم کی کپتانی میں پاکستان نے جب زمبابوے کو 129 پر آؤٹ کیا تو پاکستانی ڈریسنگ روم بہت مطمئن اور شاداں تھا۔ اوپنرز محمد رضوان اور بابر اعظم اکیلے ہی ہدف پورا کرنا چاہتے تھے لیکن زمبابوے کے ناتجربہ کار باؤلرز اور فیلڈرز نے بازی پلٹ دی دونوں اوپنرز تو جلدی آؤٹ ہوگئے لیکن شان مسعود نے اننگز سنبھال لی۔
شان نے 44 رنز کی اننگز کھیل کر میچ پر گرفت مضبوط کرلی تھی لیکن افتخار احمد، شاداب خان اور حیدر علی کی غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ نے پاکستان کو فراز سے نشیب میں پہنچا دیا۔ ایک انتہائی آسان پچ پر زمبابوے کے اسپنرز سکندر رضا اور بریڈ ایونز پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔ پاکستان کو آخری اوور میں 10 رنز درکار تھے لیکن محمد نواز وننگ شاٹ نہ لگا سکے اور پاکستان کی کشتی صرف ایک رنز کی دوری پر ڈوب گئی۔
پاکستان اس کے علاوہ بھی پانچ دفعہ 150 سے کم رنز کا ہدف عبور نک کرسکا۔ 2010ء کے ویسٹ انڈیز ورلڈ کپ میں پاکستان نیوزی لینڈ کا دیا گیا 134 رنز کا ہدف عبور نہیں کرسکا تھا اور صرف دو رنز سے میچ ہار گیا تھا۔
پاکستان نے حال ہی میں نیویارک میں جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ غیر متوقع ہے اور نہ غیر حقیقی۔ پاکستان، بھارتی ٹیم کے خلاف ہمیشہ اسی طرح پسپا ہوجاتا ہے۔
نیویارک میں کیا غلطی ہوئی؟
اتوار کو نیویارک کی پچ ناہموار اور ڈبل پیس کی حامل تھی۔ اس پچ پر 150 سے زیادہ اسکور کرنا ناممکن تھا۔ اسی لیے بھارت بھی مشکلات میں گھری نظر آئی۔ روہت شرما اور ویرات کوہلی جیسے مایہ ناز بلے باز بھی رنز بنانے میں ناکام رہے۔ حتیٰ کہ انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے سرخیل سوریا کمار یادو اور رویندر جدیجا بھی مکمل ناکام رہے۔ رشبھ پنٹ جن کی 42 رنز کی اننگز فیصلہ کن رہی ان کے علاوہ کوئی بھی بلے باز اطمینان سے کھیل نہ سکا۔ پاکستان نے بہت اچھی باؤلنگ کی لیکن پنٹ کی رنز کی رفتار نہ روک سکے۔
پاکستانی فیلڈنگ بھی غیر معیاری رہی۔ افتخار احمد اگر ایک کیچ کرلیتے تو شاید اتنے رنز بھی نہ بنتے۔ دوسری جانب پاکستانی بیٹنگ پچ کی صورت حال سے لاپروا رہی۔ مختصر ہدف نے بلے بازوں کی توجہ کم کردی جس سے رنز کی رفتار کم رہی۔ محمد رضوان جن کے بیٹ پر گیند آرہی تھی، وہ حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار نظر آئے اور جسپریت بمراہ کی باؤلنگ کو سمجھے بغیر کراس شاٹ کھیلتے ہوئے بولڈ ہوگئے۔ اسی طرح افتخار احمد اور عماد وسیم بھی اسپنرز کے خلاف قدموں کا استعمال نہ کرسکے۔ مختصر یہ کہ پاکستان نے پچ کے حساب سے زیادہ ہوم ورک نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے بلے بازوں کو مشکلات پیش آئیں۔
اب پاکستان کے لیے ورلڈ کپ کا سفر کسی حد تک ختم ہوچکا ہے۔ اگرچہ قومی ٹیم کے کینیڈا اور آئرلینڈ سے میچز باقی ہیں جو پاکستان باآسانی جیت بھی جائے تو رن ریٹ میں بہت زیادہ فرق اسے امریکا سے پیچھے رکھے گا۔ اگر امریکا اور بھارت ایک ایک میچ مزید جیت جاتے ہیں تو پاکستان کی تمام کوششیں بے کار ثابت ہوں گی۔
اگلا میچ کینیڈا
پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی امریکا سے شکست رہی۔ اس شکست نے سب کچھ بدل دیا ورنہ ایک بھارت کے خلاف شکست سے ورلڈ کپ میں ان کی پیش قدمی رک نہیں سکتی تھی۔
پاکستان کا اگلا میچ کینیڈا کے خلاف منگل کو نیویارک میں ہی ہے۔ کینیڈا کی ٹیم بھی اب تک خالی ہاتھ ہے لیکن اس نے جس طرح آئرلینڈ کو شکست دی اور امریکا کا مقابلہ کیا، اس سے پاکستان کے خلاف بھی ایک مضبوط کارکردگی اور قابل دید میچ کی توقع ہے۔
کینیڈا کی ٹیم میں تین پاکستانی شامل ہیں۔ کپتان سعد بن ظفر، ایک اچھے بلے باز اور اسپنر ہیں جبکہ راولپنڈی میں پیدا ہونے والے کلیم ثنا مشہور فاسٹ باؤلر ہیں۔ جب اپنے ملک میں انہیں موقع نہ ملا تو وہ کینیڈا شفٹ ہوگئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے لیگ اسپنر جنید صدیقی بھی توجہ کا مرکز ہوں گے۔ پاکستان کے لیے یہ میچ جتنا اہم ہے اتنا ہی کینیڈا کے لیے اور حیرت انگیز طور پر کینیڈا نے پاکستان کے خلاف جیتنے کا دعویٰ کیا ہے۔ کینیڈا اور امریکا تو بھارت کو بھی ہرانے کا عزم رکھتے ہیں۔
نیویارک کی پچ ایک بار پھر دھوکہ دے سکتی ہے۔ جبکہ ٹیم میں عماد وسیم کی جگہ صائم ایوب اور نسیم شاہ کی جگہ عباس آفریدی کو موقع دینے کی باتیں ہورہی ہیں۔ عماد وسیم مکمل فٹ نہیں ہیں جبکہ عباس نے دو دن پہلے نیٹ میں عمدہ باؤلنگ کی تھی۔ ایسے میں صائم ایوب کی شمولیت یقینی ہے۔ اگر صائم کھیلے تو بابر اعظم ون ڈاؤن پوزیشن پر کھیلنے آئیں گے۔
کینیڈا کے خلاف ٹیم اب مارو یا مرجاؤ کی سطح پر آچکی ہے۔ اس لیے نتیجہ بہت مختلف ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے لیے سپر ایٹ مرحلے میں پہنچنے کے لیے اب ضروری ہے کہ امریکا اپنے دونوں باقی میچز ہار جائے اور اس کا رن ریٹ بھی کم ہوجائے۔ تب ہی پاکستان کے لیے کچھ امید ہے بہ صورت دیگر فلوریڈا میں پاکستان کا آئرلینڈ کے خلاف آخری گروپ میچ اس کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024ء میں آخری میچ ہوگا۔
لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔