وفاقی کابینہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی
وفاقی کابینہ نے آئندہ مالی سال 24-2023 کے بجٹ کی منظوری دے دی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں دوران وفاقی کابینہ نے آئندہ مالی سال 24-2023 کے بجٹ کی منظوری دی، کابینہ اجلاس میں کسانوں، نوجوانواں اور صعنتوں کے لیے پیکج کی منظوری بھی دی گئی۔
آئندہ مالی سال میں تمام تر اسکیموں کا اعلان وفاقی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں شامل ہے۔
کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کو معاشی مشکلات کے منجدھار سے نکال کر استحکام کی طرف لائے، تاریخ گواہ ہے کہ ہم نےاپنی سیاست قربان کرکے ملکی معیشت کو بچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ اللہ کی مدد سے اور نواز شریف کی قیادت میں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، ملک کو دیوالیہ کرنےکےخواب دیکھنے والوں کی سازشیں دھری رہ گئیں، سازشی ٹولے نے ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی بے حرمتی کی گئی، اپنی کئی برس کی عملی سیاست میں ایسا انتشار پہلی بار دیکھا۔
شہبازشریف نے کہا کہ بجٹ میں جس قدر ہو سکا عام آدمی کو ریلیف دیں گے، ملک کے مزدور،کسان اور تنخواہ دار طبقے کے ریلیف کے لیے اقدامات کریں گے۔
واضح رہے کہ اتحادی حکومت اب سے کچھ دیر بعد آئندہ مالی سال 24-2023 کے لیے بجٹ پیش کرے گی جب کہ وہ عالمی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) کے ساتھ نئے قرض پروگرام کے سلسلے میں مذاکرات کے دوران اپنا کیس مضبوط کرنے کی کوشش کرے گی۔
قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شام 4 بجے طلب کیا گیا تھا، تاخیر کا شکار ہے جو تاحال شروع نہیں ہوسکا ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کریں گے جس میں ملک کے مجوزہ اخراجات اور ذرائع آمدن کے منصوبوں کے خدوخال واضح کریں گے۔
حکومت کے عبوری منصوبے کے مطابق بجٹ پر عام بحث 20 جون کو شروع ہوگی جو 24 جون تک جاری رہے گی، ارکان 26 اور 27 جون کو کٹ موشن پر بحث اور ووٹنگ میں حصہ لیں گے جب کہ 28 جون کو بجٹ کو منظور کیا جائے گا۔
ایک دن پہلے حکومت نے پاکستان اکنامک سروے 2023-24 جاری کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مشکل حالات کی وجہ سے معیشت گزشتہ بجٹ میں مقرر کردہ اپنے زیادہ تر اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہی، تاہم زراعت کے شعبے نے بے مثال ترقی حاصل کی۔
پیر کو وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، چاروں وزرائے اعلیٰ، دفاع، خزانہ اور منصوبہ بندی کے وزرا پر مشتمل قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) نے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 47 فیصد اضافہ کرتے ہوئے 37 کھرب 92 ارب روپے کے وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کی منظوری دی۔
گزشتہ ہفتے یہ رپورٹ کیا گیا تھا کہ وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف بجٹ سے قبل اہم بات چیت میں مصروف ہیں جب کہ عالمی قرض دہندہ نے کچھ سخت شرائط حکومت کے سامنے رکھ دی ہیں۔
آئی ایم ایف کے اہم مطالبات میں ٹیکس ریونیو ہدف میں اضافہ، سبسڈیز کا خاتمہ، زرعی شعبے پر ٹیکس، بجلی، گیس اور تیل کے شعبوں پر لیوی اور ٹیکسوں میں اضافہ، خسارے کا شکار سرکاری اداروں اور یونٹس کی نجکاری اور گورننس کو بہتر بنانا شامل ہیں۔
بجٹ پیش کیے جانے سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت حکومتی اخراجات اور حکومتی ڈھانچے کا حجم کم کرنے کے حوالے سے اہم اجلاس ہوا، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں قلیل مدتی اور وسط مدتی سفارشات پیش کیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کی گئی رپورٹ میں کمیٹی نے کچھ سرکاری اداروں کو بند کرنے، کئی اداروں کو ضم کرنے اور کچھ اداروں کو صوبوں کے حوالے کرنے کی سفارش کردی۔
وزیراعظم نے ابتدائی تجاویز پر غور کرنے کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے دی، کمیٹی 10 ہفتوں کے اندر جامع رپورٹ پیش کرے گی۔
شہباز شریف نے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کو ہدایت دی کہ وہ عالمی سطح کے بہترین تجربات سے استفادہ حاصل کرکے ٹھوس تجاویز دے، امید ہے کہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں قوم کے اربوں روپے کی بچت ہو سکے گی۔
وزیراعظم کو پیش کی گئی رپورٹ میں ایک سال سے زائد سے خالی تمام اسامیاں ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے، نئے بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کے لیے کنٹریبیوٹری پینشن کا نظام لانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سرکاری اداروں میں سروسز کی فراہمی کے لیے نجی شعبے کی خدمات لی جائیں، حکومتی اخراجات کم کرنے کے لئے سرکاری اہلکاروں کے غیر ضروری سفر پر پابندی عائد کی جائے اور ٹیلی کانفرنسنگ کو فروغ دیا جائے۔
رپورٹ میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ ایسے سرکاری افسران جو مونو ٹائیزنگ کی سہولت حاصل کررہے ہیں، ان سے سرکاری گاڑیاں فوری واپس لی جائیں۔