• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

تحریک انصاف بجٹ کو عوام کیلئے زہر قاتل سمجھتی ہے، شبلی فراز

شائع June 13, 2024
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا ہے کہ اس بجٹ میں کوئی اکنامک وژن نظر نہیں آیا، موجودہ حکومت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، پاکستان تحریک انصاف اس بجٹ کو عوام کے لیے زہر قاتل سمجھتی ہے۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس منعقد ہوا، جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ایوان میں نہ کوئی وفاقی وزیر ہے نہ حکومتی نمائندہ تقریر کرنا مناسب نہیں ہے، مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔

شبلی فراز نے کہا کہ موجودہ حکومت غیر قانونی ہے، یہ حکومت جیسے آئی ہے، سب کو معلوم ہے، جو حکومت عوام کے ووٹ سے منتخب نہ ہوئی ہو، اس میں غیر قانونیت ہوتی ہے۔

قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ اس بجٹ میں کوئی اکنامک وژن نظر نہیں آیا، موجودہ حکومت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، پاکستان تحریک انصاف اس بجٹ کو عوام کے لیے زہر قاتل سمجھتی ہے، پاکستان کی عوام ایک طرف اور اشرافیہ دوسری طرف کھڑی ہے۔

شبلی فراز نے کہا کہ پاکستان کی سیلری کلاس پر ٹیکس کا بوجھ بڑھا دیا ہے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اشرافیہ کے نمائندے ہیں، آئی ٹی کی ایکسپورٹ پر بھی ٹیکس کا وار کیا گیا ہے، بھارت نے ہمیں طعنہ دیا کہ پہلے ہاتھ میں بم لے کر پھرتے تھے اب کشکول لے کر مارے پھر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بیان سے پاکستانی قوم کی دل آزاری ہوئی ہے، بجٹ کی آمدن کا ہدف خوش خیالی پر مبنی ہے، ایکسپورٹ پر ہم نے ٹیکس کا وار کیا ہے، حکومت کی غلط پالیسیوں نے عوام کو مزید غربت کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔

شبلی فراز نے کہا کہ ہماری اشرافیہ کے پیسے بیرون ممالک میں پڑے ہیں، 11 ارب ڈالر کی پاکستانی سرمایہ کاری تو صرف دبئی میں پڑی ہوئی ہے، جب قربانی کی بات آئے تو عوام آگے ہوتی ہے، حکومت صرف مفاد اٹھاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی دور میں لوگ جیل گئے مانتا ہوں، لیکن وہ کون سے کیسز تھے؟ یہ وہ کیسز تھے جو پاکستان پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ پر اور (ن) لیگ نے پیپلز پارٹی پر بنائے تھے۔

شبلی فراز نے کہا کہ سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے جا رہے، کیا وہ اتنے خطرناک ہیں کہ ان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے جاسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے انتخابات کروائے، اگر سپریم کورٹ انتخابات کا حکم نہ دیتا تو آج تک الیکشن نہ ہوتے، ایوان میں کوئی وزیر نہیں نظر آرہا ہے، تحریک انصاف کو انتخابی نشان نہیں دیا جارہا۔

شبلی فراز نے مزید کہا کہ انہیں ڈر ہے کہ کل لوکل باڈیز پر تحریک انصاف کلین سوئپ نہ کردے، نوجوان اس ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں، بجٹ میں ان کے لیے کچھ نہیں رکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ کی ترجیح یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے فائر وال کی تنصیب پر 30 ارب سے زائد رقم مختص کردی، نوجوان ملک چھوڑ پر مجبور ہو رہے ہیں، ملک میں کوئی قانون نہیں ہے۔

بجٹ دستاویز بس آئی ایم ایف کے گن گا رہا ہے، سینیٹر تاج حیدر

بعد ازاں پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا غلط فہمیاں بڑھتی جاتی ہیں اور اس کی تردید نہیں کی جاتی، جب ہم نے وزیر خزانہ کی تقریر کو پڑھا اور اس کے شروع میں ہی لکھا تھا کہ یہ بجٹ کی دستاویز سیاسی رہنماؤں کی سربراہی میں تیار کی گئی اور اس میں بلاول بھٹو کا بھی نام ہے، تو ایک ایسی دستاویز جس میں ناکام پالیسیوں کو دہرایا گیا اور جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں اس کے ساتھ بلاول کا نام منسلک کرنا غلط الزام ہے اور میں پیپلز پارٹی کی جانب سے اس الزام کی تردید کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بلاول بھٹو کی رہنمائی حاصل ہوتی اس میں تو یہ دستاویز کچھ اور ہوتی، پیپلز پارٹی کو اعتماد تک میں نہیں لیا گیا کہ کیا بجٹ لایا جارہا ہے، یہاں رہنمائی تو کیا اعتماد تک کا بھی فقدان ہے، ہمیں اعتماد میں نا لینے کی وجوہات ہیں اور وہ ہے نظریہ، ہم ایک نظریاتی جماعت ہیں، جو ہم نے 10 نکات دیے تھے وہ بھی اسی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور اس میں اور بجت کے اندر جو ہے اس میں زمین آسمان کا فرق ہے، بجٹ دستاویز بس آئی ایم ایف کے گن گا رہا ہے، اور اس بات پر خوشی کا اطہار کیا جارہا ہے کہ اائی ایم ایف ہم سے راضی ہے اور ہم ایک نیا بیل آؤٹ پیکیج لیں گے، جو پیپلز پارٹی کے دستاویز ہیں اس میں آئی ایم ایف کا لفظ تک استعمال نہیں کیا گیا ہے۔

نجکاری کسی صورت منظور نہیں، رہنما پیپلز پارٹی

انہوں نے بتایا کہ یہ جو اختلاف ہے اس کو کیسے سنبھال سکتے ہیں؟ بجت میں نجکاری کے قصیدے پڑھے گئے مگر ہم نجکاری قوبل کرنے کو کسی صورت بھی تیار نہیں، نجکاری اس ملک میں تباہی لا چکی ہے، 100 سے زیادہ یونٹس تباہ ہوگئی ہے، نجکاری نے ملک کو تباہ کیا گیا ہے۔

تاج حیدر نے کہا کہ اگر ایک صنعتی منصوبہ حکومت نہیں چلا سکتی تو وہ ملک کیسے چلا سکتی ہے؟ یہی رٹ کے نجی شعبہ ملک کو آگے لے کر جائے گا یہ بھول گئے کہ اس وقت نجی شعبے کی ساڑھے 8 ہزار اندسٹریز بند ہیں، ان انڈسٹری کو کیسے چلایا جائے گا اس حوالے سے کوئی بات نہیں بجٹ میں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہی پرانی منطق کہ ٹرکل ڈاؤن اکانومی جو دنیا بھر میں فیل ہوگئی ہے اسے ہی دہرایا گیا، کہیں نہیں کہا گیا کہ عوام دوست پالیسی لائے جائے، کیا حکومت اس زمینی حقیقت سے واف ہے کہ اس وقت مارکیٹ پر کون حاوی ہے؟ اس وقت مارکیٹ اسمگلرز کے ہاتھ میں اور کس حکومت کی کوئی پالیسی نہیں ان کے خلاف، اگر اسمگلنگ سے نجات حاصل کرنی ہے تو اس کی پالیسی بنانی ہوگی۔

تاج حیدر نے کہا کہ باہر کی سرمایہ کاری کا کہہ کر لوگوں کو ٹرک کے پیچھے لگایا جارہا ہے، ابھی تک ایسی کوئی سرمایہ کاری نہیں آئی۔

بچے پیدا کرنے پر بھی ٹیکس لگا دینا چاہیے، ایمل ولی خان

عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر ایمل ولی خان نے سینیٹ اجلاس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ایسا بجٹ آیا کہ اس پر پوری قوم پریشان ہے ، پاکستان می ٹیکس کی بھرمار میں زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے، ہماری سانس لینے اور موت پر بھی ٹیکس لگا دینا چاہیے، بچوں کے پیدا ہونے پر بھی ٹیکس لگانا چاہیے، بس انہی چیزوں پر ٹیکس لگانا اب رہ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان 14 اگست کو بنا مگر وہ آزاد نہیں ہوا، ہم نے پورے ملک کو تباہ کردیا ہے، ہمارے ملک کی اکانومی وار اکانومی ہے، یہاں جنگ ہوگی تو پیسہ آئے گا اور جب جنگ نہیں ہوگی تو اکانومی بیٹھ جائے گی، ہم اپنی معیشت کو جنگ کے ذریعے چلا رہے ہیں وہ بھی امریکا کی جنگ کے پیچھے، 9/11 کے بعد ہم نے دیکھا کہ ڈالرز آرہے ہیں تو ان سالوں میں ہم نے پرائے مال پر انحصار کر کے ملک کو چلانے کی کوشش کی اور آج تک حالات وہی ہیں، اس بجٹ کی عکاسی ہے کہ عوامی نمائندوں نے اسے نہیں بنایا، اس بجٹ کو آئی ایم ایف نے ڈکٹیٹ کیا۔

ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ اس بجٹ میں قوم کو ریلیف نہیں، ہمارا ملک قرض میں ڈوبتا جارہا ہے، تعلیم کا بجٹ کاٹ دیا گیا ہے، صحت کا بجٹ بھی کاٹ دیا گیا ہے، باقی عوام کے لیے جو کچھ تھا اس کو کم کر دیا گیا، جن حالات میں ہم نے نوکریاں دینے سے انکار کردیا ہو تو ان حالات میں کون اس بات کا دفاع کرسکتا ہے کہ ڈیفنس بجٹ میں 17.6 فیصد اضافہ کیا جائے؟ ہمیں شرم کرنی چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ جس حالات میں ہم بجٹ بنا رہے ہیں ان حالات میں ہم 2 ہزار ایک سو بائیس ارب پاک فوج کو دے رہے ہیں کس کارنامے کے لیے؟ آج بنگلہ دیش کی حالت دیکھیں وہ عزت کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہم بھوکے مر رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024