• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am

جناح کے سیکولرازم سے آگے

شائع September 17, 2013

 .-- بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح -- فائل فوٹو
.-- بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح -- فائل فوٹو

یہ کہنا کہ محمد علی جناح سیکولر ذہن کے آدمی تھے اب پرانی بات ہوئی- حال ہی میں آل انڈیا ریڈیو کی دستاویزات کے ذخیرے (آرکائیوز) میں ان کی دو ریڈیو نشریات سامنے آئی ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات ان کے سیکولرنظریات میں الجھاؤ تھا جو کانگریس پارٹی میں ان کے دو بڑے حریف گاندھی اور نہرو دونوں کے ساتھ مشترک تھا-

میرے خیال میں حقیقی سیکولرزم کو ہندو-مسلم پیراڈائم (Hindu-Muslim Paradigm) سے آگے بڑھنا چاہئے جس پر جنوبی ایشیائی لبرلزم کے حامی پرجوش اور مطمئن نظر آتے ہیں- آزادی کے ان تینوں رہنماؤں نے اپنے اپنے طور پر سیکولرازم کی تشریح کی ہے اگرچہ کہ ان کے اپنے اپنے حلقہء انتخاب کے لوگوں کیلئے اس کے نتائج المناک ثابت ہوئے-

یہ بات بلا تردید کہی جاسکتی ہے کہ تقسیم سے پہلے کے ہندوستان میں ریلوے پلیٹ فارم پر پانی کے جو گھڑے رکھے جاتے تھے ان پر"ہندو پانی" اور"مسلم پانی" لکھا ہوتا تھا- اسی طرح ہندو جم خانہ اور مسلم جم خانہ وغیرہ بھی ہوا کرتے تھے-

حقیقت تو یہ ہے کہ اب بھی ہندوستان کی سڑکوں پر ہندو وشنو بھوجنالیہ یا حلال کباب لکھے ہوئے ریستوران نظرآتے ہیں- بلکہ آپ کو کسی چھوٹے سے شہر میں "مسلم ہوٹل" بھی نظر آجائیگا- ہندوستان میں ریستوراں کو ہوٹل بھی کہا جاتا ہے-

سوال یہ ہے: کیا وہ طبقہ جو ہندو-مسلم دائرہ سے خارج ہے مَثَلاً دلت تو کیا انہیں ان دونوں میں سے کسی بھی گھڑے سے پانی پینے کی اجازت تھی، جو ان دو مذہبی گروہوں کیلئے تھے جو ایک دن جدا ہونے والے تھے؟ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ برصغیر کے ان رہنماؤں کے نظریات سیکولرزم کے بارے میں کیا تھے اور اس سماجی تفریق کے بارے میں انہوں نے چپ سادھ رکھی تھی-

اس سوال پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے اگرچہ کہ ہمیں اس کا جواب بھی اچھی طرح معلوم ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اور ہندو اشرافیہ دونوں ہی کسی نہ کسی حد تک چھوت چھات پرعمل کرتے تھے اور بعض تو آج بھی کرتے ہیں-

اگر ہندوستان اور پاکستان، دونوں ہی جگہ دلت آزادی کے چھیاسٹھ سال بعد بھی اسی بے بسی کا شکار ہیں توان عظیم سیاسی رہنماؤں نے سیکولرزم کے بارے میں جو زبانی وعدے کئے تھے ان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

"شہنشاہ اکبر نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ جس رواداری اور خلوص کا مظاہرہ کیا تھا وہ کوئی آج کی بات نہیں ہے"، یہ بات جناح نے اپنی 14اگست 1947 کی تقریر میں کہی تھی جو آل انڈیا ریڈیو سے نشرہوئی تھی-

انہیں یقین تھا کہ اکبر جن صفات کا نمائندہ تھا وہ تیرہ صدی پرانی تھیں- "جب ہمارے رسول صلعم فتح مکہ کے بعد نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ خوشدلی سے پیش آئے تھے- آپ نے ان کے مذہب اور اعتقادات کی جانب انتہائی احترام کا مظاہرہ کیا تھا- مسلمانوں کی ساری تاریخ میں جہاں جہاں انہوں نے حکمرانی کی، انسان دوستی اور عظیم اصولوں کی ایسی مثالیں بھری ہوئی ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا چاہئے"-

کیا جناح کے مذہبی مساوات کے اس نظریے میں، خاص طور پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ---- ایک اور مسئلہ کو نظر انداز نہیں کر دیا گیا ہے، وہ روایتی عدم مساوات جسے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں ہی اگر بالکل رد نہیں کررہے تھے، تو کیا اس کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش نہیں کررہے تھے؟

جناح نے پاکستان میں یہ تجویز پیش کرنے کی کوشش کی کہ قانون  کی نظر میں ہندو اور مسلمان برابر ہیں- یہ ہمیں ان دنوں کی یاد دلاتا ہے جب اودھ کی بیگم حضرت محل نے 1857 کی برطانیہ کے خلاف گوریلا جنگ میں جب کہ انہیں جنگلوں میں دھکیل دیا گیا تھا، پمفلٹ تقسیم کئے تھے- گو کہ اس میں اس نظریے کو بھرپور طریقے پر پیش نہیں کیا گیا تھا-

بہت سا اہم معلوماتی لٹریچر ایسا موجود ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بہت سی صورتوں میں دلت اپنے ہندوستانی حکمرانوں سے اتنے بیزار تھے کہ 1857 کی خونریز جنگ کے بعد انگریز فتح مند ہوئے تو انہیں اطمینان ہی ہوا تھا-

کیا جناح نے اس مسئلہ پر دلتوں کے عظیم رہنما بھیم راؤ امبیڈکر سے بات کی تھی جنھیں گاندھی سے اس سوچ پر سخت اختلافات تھے جو انہوں نے آزاد ہندوستان میں ان کی کمیونٹی کے مجوزہ حقوق کے بارے میں اپنا رکھا تھا؟

اگرچہ اودھ کی بیگم حضرت محل نے انگریزوں کی حکمرانی کے خلاف جنگ بڑی بہادری سے لڑی تھی لیکن ان کے بیٹے برجیس قدرنے جو فرمان جاری کیا تھا اس کے متن سے ایک بالکل مختلف نقطہ نظر سامنے آتا ہے- اس میں ہندوستان کے نچلے طبقے کے خلاف ایک گہرا تعصب نظر آتا ہے حالانکہ اودھ کی ملکہ جنھیں تخت سے اتاردیا گیا تھا ہندو-مسلم اتحاد کو اپنا اہم اثاثہ قرار دیتی تھیں-

دی انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ کو باغی رہنما کی جانب سے جاری کئے ہوئے فرمانوں کی دستاویزات ملی ہیں- علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈاکٹر اقبال حسین نے ان دستاویزات کو مرتب کیا ہے جسے سرحد کے دونوں طرف رہنے والے سماجی تاریخ کے طالب علموں کو ضرور پڑھنا چاہئے-

برجیس قدر (والی اودھ) نے 25 جون 1858 کے اپنے فرمان میں اپنی رعایا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت مذہب کے حق، عزت اور وقار، زندگی اور املاک کا احترام کرتی ہے اور یہ ایک ایسی بات تھی جس کا بظاہر انگریزوں نے بھی اظہار نہیں کیا تھا- اس کے بعد وہ اپنے دعویٰ کی وضاحت کرتے ہیں؛

"ہر شخص اپنے مذہب کی پیروی کرتا ہے (میری ریاست میں) اور انہیں اپنی حیثیت اور مرتبہ کے مطابق عزت و احترام حاصل ہے- اعلی تعلیم یافتہ افراد کو خواہ ان کا تعلق مسلمانوں میں سید، شیخ، مغل اور پٹھانوں سے ہو یا وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے برہمن، کھشتری، ویش یا کائستھ ہوں انہیں اپنی حیثیت اور مرتبہ کے مطابق عزت واحترام حاصل رہیگا- لیکن نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے جمعدار، چمار، دھنوک اور پاسی ان کی برابری نہیں کرسکتے"-

شہزادہ برجیس قدر مزید واویلا کرتے ہوئے کہتے ہیں؛

"انگریز اعلی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہر فرد  کے عزت واحترام کو نچلے طبقات کی عزت واحترام کے مساوی قرار دیتا ہے"-

اتنا ہی نہیں، اگر آخرالذکر کا موازنہ اعلی طبقہ سے کیا جائے تو وہ اعلی طبقہ کے لوگوں کے ساتھ حقارت سے پیش آتے ہیں اور ان کی توہین کرتے ہیں- جہاں کہیں وہ جاتے ہیں عزت دار لوگوں کو پھانسی پر لٹکادیتے ہیں اور چمار کے کہنے پر کسی نواب یا راجہ کو طلب کرکے اس کی تذلیل کرتے ہیں".

تقسیم کے عمل کی اس حقیقت کو ہماری درسی کتابوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں نظرانداز کردیا جاتا ہے- جناح کی تقاریر کی دو ریلیں (اسپولس) جنھیں آؤٹ لک میگزین نے پچھلے ہفتہ عوام کے سامنے منکشف کیا ہے اور جسے پاکستان چاہتا ہے کہ اس کے حوالے کردیا جائے، ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے ہندو مسلم کھیل پر بحث مباحثہ شروع کرنے میں ناکام رہا، حالانکہ ایسا ہوسکتا تھا-

ان دونوں ریکارڈنگزمیں سے پہلی ریکارڈنگ غالباً جناح کی آخری تقریر ہے جو انہوں نے ریڈیو سے ان سرحدوں کے اندر سے کی جو اب ہندوستان میں ہے- یہ تقریر 3 جون 1947 کو نئی دہلی سے کی گئی تھی یعنی اس ملک کوروانہ ہونے سے  دو مہینے پہلے جو ان کی زندگی کا مقصد بن گیا تھا-

دوسری تقریر، جو گرچہ مختصر ہے لیکن ان کے مشہور و معروف خطبہ کی ریکارڈنگ ہے جو انہوں نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے 14 اگست 1947 کو دیا جس دن پاکستان قائم ہوا تھا-


ترجمہ: سیدہ صالحہ

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025