’ٹیلی کام کمپنیاں سرویلنس سسٹم کے ذریعے لاکھوں لوگوں کی نگرانی کررہی ہیں‘
پاکستان میں کام کرنے والی ٹیلی کام کمپنیاں، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے حکم پر ایک بڑے پیمانے پر نگرانی کا نظام چلا رہی ہیں جو کسی ریگولیٹری میکانزم یا قانونی طریقہ کار کے بغیر صارفین کے ڈیٹا اور ریکارڈ کی نگرانی کررہی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معلومات ان شہریوں کی نگرانی سے متعلق ایک کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم میں سامنے آئی ہیں جن کی نجی فون پر گفتگو ریکارڈ کی گئی اور بعد ازاں سوشل میڈیا پر جاری کی گئی، 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے دوران، سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت کئی آڈیو کلپس سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی، جس کی وجہ سے یہ معاملہ عدالت لایا گیا۔
جسٹس بابر ستار کے تحریری فیصلے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ ٹیلی کام کمپنیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ نامزد ایجنسیوں کے استعمال کے لیے ایک مقررہ جگہ (جسے ’نگرانی مرکز‘ کہا جاتا ہے) لافل انٹرسپٹ مینجمنٹ سسٹم (ایل آئی ایم ایس) کو ’خریدنے، امپورٹ اور انسٹال“ کریں، تاہم عدالت کو ان ایجنسیوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
’نگرانی کے مرکز سے نامزد ایجنسی کسی بھی صارف کی سم یا آئی ایم ای آئی نمبر یا ایم ایس آئی ایس بی این کی شناخت کے لیے ایک بٹن کے ذریعے ٹریک اور ٹریس کی درخواست کرسکتی ہے، جو ایل آئی ایم ایس کے ذریعے خودکار طریقے کے تحت کی جاتی ہے کیوں کہ یہ سسٹم ٹیلی کام نیٹ ورک کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی انسان کی مداخلت کے بغیر ایس ایم ایس کی تفصیلات، کال اور میٹا ڈیٹا رپورٹس، سرور کے ذریعے نگرانی کے مرکز میں قائم کیے گئے ایک مانیٹرنگ سینٹر میں رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ جب کہ صارفین کی آڈیو، ویڈیو اور ویب پیچ ریکارڈ سمیت مواصلات کا پورا مواد ایک اور سرور کے ذریعے مانیٹرنگ سینٹر کے ساتھ شیئر کیے جاتے ہیں۔
اسی طرح عدالت کو بتایا گیا کہ کسی بھی صارف کا ڈیٹا نگرانی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے، صارفین کی وائس کالز سنی جاسکتی ہیں اور ایس ایم ایس پڑھے جا سکتے ہیں۔
عدالتی حکم کے مطابق، ٹیلی کام لائسنس دہندگان پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے 2 فیصد صارفین کی ایل آئی ایم ایس کے ذریعے نگرانی کی جاسکے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ایک بڑے پیمانے پر نگرانی کے نظام کے ذریعے پاکستان کے تمام ٹیلی کام صارفین میں سے 2 فیصد کا بغیر کسی عدالتی یا انتظامی نگرانی کے سروے کیا جاسکتا ہے، جس سے ایک اندازے کے مطابق کسی بھی وقت 40 لاکھ سے زیادہ شہریوں کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔
بڑے پیمانے پر نگرانی کا نظام
ڈان نے ان انکشافات کی روشنی میں کئی ڈیجیٹل حقوق کے ماہرین سے رابطہ کیا جو غیر منظم بڑے پیمانے پر نگرانی کے نظام کے نقصان دہ اثرات کے بارے میں فکر مند دکھائی دیے۔
نگہت داد نے ڈان سے بات کرتے ہوئے نگرانی کی حد کے بارے میں کہا ’مجھے نہیں لگتا کہ اس قسم کی معلومات کسی کو بھی دستیاب تھیں کہ اس حد تک ڈیجیٹل نگرانی کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ایسی مثالیں ہیں جب نگرانی کی اجازت دی جا سکتی ہے، لیکن اس کے بھی کچھ معیارات ہیں، نگرانی کے لیے جائز مقصد، ضرورت اور تناسب، شفافیت کی ایک خاص حد کو پورا کرنا ہوگا، تاہم ایل آئی ایم ایس ان سب کی خلاف ورزی کرتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ایسی کارروائی کے لیے فیئر ٹرائل ایکٹ کے سخت نفاذ کی ضرورت ہے۔
بائٹس فار آل میں کام کرنے والے ہارون بلوچ نے کہا کہ ایل آئی ایم ایس ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس کے ذریعے سفر کرنے والے ٹریفک ڈیٹا کی نگرانی کر سکتا ہے جو کہ غیر انکرپٹڈ ہے، جیسے کہ آئی پی ایڈریسز، ویب سائٹس تک رسائی، اور براؤزنگ ہسٹری وغیرہ، جب کہ اس کے ذریعے انکرپٹڈ ڈیٹا تک بھی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے جس میں موبائل کالز، ایس ایم ایس، ایم ایم ایس، یا کوئی بھی کمیونیکیشن ایپلیکیشن ڈیٹا شامل ہے۔
تکنیکی اور ڈیجیٹل حقوق کی صحافی رمشا جہانگیر نے ’انکرپٹڈ ڈیٹا (جیسے واٹس ایپ پیغامات) کو ریکارڈ کرکے اس مواد کو ڈکرپٹ کرنے کی صلاحیت پر تشویش کا اظہار کیا۔
واضح رہے کہ 26 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے دارالحکومت کی پولیس کی جانب سے جرم کے بعد مشتبہ افراد کی نگرانی کی اجازت دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
عدالت میں پیش ہوکر اسلام آباد پولیس کے ڈائریکٹر لا طاہر کاظم نے کہا کہ گزشتہ ماہ نگرانی کے خلاف عدالت کے حکم کے بعد، سیلولر کمپنیوں نے معمول کی مجرمانہ تحقیقات کے لیے درکار انتہائی ضروری ڈیٹا کا اشتراک کرنا بند کر دیا ہے۔
16 جون کو اسلام آباد پولیس نے ایڈووکیٹ جنرل پر زور دیا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالیہ حکم کو چیلنج کریں جس نے انٹیلیجنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جرائم کی تحقیقات اور دہشتگردی کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے عملی طور پر معذور کر دیا ہے۔
وہ 30 مئی کے جج کے حکم کا حوالہ دے رہے تھے جہاں جج نے کہا کہ کسی بھی ریاستی اہلکار کو شہریوں کی نگرانی کرنے کا اختیار نہیں ہے اور جو بھی ایسا کرے گا یا اس طرح کی کارروائیوں میں مدد کرے گا وہ جرم کا ذمہ دار ہوگا۔