نیپرا کا حکومت سے بجلی کی پیداوار کے معاہدوں میں تصحیح کا مطالبہ
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بجلی کی پیداوار سے متعلق معاہدوں پر سنجیدگی سے کام کرے تاکہ 7 روپے 12 پیسے فی یونٹ ٹیرف میں اضافے پر احتجاج کرنے والے عوام کو خاطر خواہ ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیپرا نے سماعت کے دوران اعلان کیا کہ اس نے میٹر ریڈنگ کے طریقہ کار میں تبدیلیوں کی وجہ سے تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے گزشتہ ماہ کی اوور بلنگ کا نوٹس لیا تھا اور اس کی تفصیلی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
پاور ڈویژن اور اس کی ماتحت کمپنیوں کے نمائندوں نے دعویٰ کیا کہ کم سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور ماہانہ فیول لاگت میں تبدیلی کی وجہ سے رواں مالی سال کا اوسط ٹیرف پچھلے سال کے مقابلے کم ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے بالآخر 200 یونٹس فی ماہ استعمال کرنے والے رہائشی صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے 3 ماہ کے لیے 50 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی ہے، تاہم پلاننگ کمیشن کے ایک سینئر اہلکار نے سماعت کے دوران بتایا کہ اس ریلیف کے بارے میں کابینہ سے باضابطہ منطوری ہونا ابھی باقی ہے۔
نیپرا کے چیئرمین وسیم مکھر کی زیر صدارت حکومت کی جانب سے قومی اوسط ٹیرف میں 51 فیصد تک اضافے کی تجویز پر نظرثانی کی درخواست پر عوامی سماعت ہوئی، کراچی سمیت ملک بھر سے تقریباً تمام صارفین کی جانب سے حکومتی فیصلے پر سخت تنقید کی گئی تھی۔
یہاں تک کہ ایکسپورٹ سیکٹر (جس کے لیے حکومت نے اس مالی سال کے دوران 155 ارب روپے کے ٹیرف میں کمی کا دعویٰ کیا تھا)، کا کہنا ہے کہ ان کا 42 روپے فی یونٹ کا موثر ٹیرف اب بھی خطے میں 8-9 سینٹس کے مقابلے میں 15 سینٹ فی یونٹ پر کام کر رہا ہے۔
آن لائن اور سماعت کے دوران موجود صارفین نے نیپرا کو مبینہ طور پر سرکاری ٹیرف میں اضافے کے لیے ربڑ اسٹیمپ کے طور پر کام کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
کچھ شرکا نے پنجاب اور وفاقی حکومتوں کے متضاد پالیسی پر بھی بات کی، ایک طرف صوبائی حکومت سبسڈی والے سولر پینل فراہم کرکے بجلی کی اضافی صلاحیت پیدا کرررہا ہے تو دوسری جانب وفاق صارفین پر فکسڈ چارجز عائد کررہا ہے۔
نیپرا کے ٹیرف ممبر متھر نیاز رانا نے کہا کہ حکومت کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا آئی پی پیز اور جنریشن پلانٹس اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی کیے بغیر موثر طریقے سے کام کر رہے ہیں۔
نیپرا کے چیئرمین مختار نے کہا کہ ریگولیٹر کو نا اہلی پر بہت زیادہ تحفظات ہیں اور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں کارکردگی اور ریگولیٹری معیارات سے بہت پیچھے ہیں، سوائے چند ڈسکوز جو ان معیارات پر پورا اتر رہی تھیں یا ان کے قریب تھیں۔
انہوں نے کہا کہ پاور کمپنیاں گزشتہ سالوں میں 92 فیصد سے زیادہ ریکوری کو بہتر کرنے میں ناکام رہی ہیں جو کہ 100 فیصد ہونی چاہئے، اور اس کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے پاور ڈویژن کے جوائنٹ سیکرٹری محفوظ بھٹی کی قیادت میں حکومتی ٹیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے نظام میں جوابدہی کا کچھ نظام لائیں۔
بھٹی نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی اس سمت میں کام شروع کر دیا ہے، اور وزیر اعظم خود پاور سیکٹر میں اصلاحات کی نگرانی کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اب ڈسکوز کے لیے کلیدی کارکردگی کے اشارے متعارف کرائے جا رہے ہیں، سپورٹ یونٹ بنائے جا رہے ہیں، اور بورڈز کو سیکٹر کے ماہرین کے ساتھ تبدیل کیا جا رہا ہے، جب کہ کچھ شعبوں میں سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہے۔