یورو اور کوپا امریکا 2024ء: ’انگلینڈ کو اٹس کمنگ ہوم کا نعرہ راس نہیں آرہا‘
اب اسے میں اتفاق کہوں یا اسے ہم کیا سمجھیں کہ یورو کپ کا فائنل کھیلنے والی ٹیموں کا فیصلہ ہونے سے پہلے سوشل میڈیا پر ایک ٹریند کافی مقبول تھا کہ جس میں لوگوں سے سوال کیا جاتا ’انگلش یا اسپینش؟‘ جواب دینے والے کو اگلا ایسا سوال کرکے فریز کردیا جاتا ہے جس کا جواب وہ دینا نہیں چاہتا جیسے کہ ’پہلے ہلنے والا گے ہے‘ اور میسی کے مداح کو بولا جاتا کہ ’پہلے ہلنے والا رونالڈو کا فین ہے‘ وغیرہ۔
اب کسی کو کیا علم تھا کہ فائنل میں اسپین اور انگلینڈ کا ٹاکرا ہوجائے گا جس کی وجہ سے اس ٹرینڈ نے فٹبال کی دنیا میں ایک مخصوص نوعیت اختیار کرلی اور کہا جانے لگا کہ سب فریز ہوکر یہ فائنل دیکھیں گے۔
خیر یہ غلط نہیں تھا۔ فائنل ایسا کھیلا گیا کہ دیکھنے والے اپنی جگہ سے ہل نہیں پائے۔ سنسنی خیز اور دلچسپ مقابلے کے بعد اسپین نے انگلینڈ کو شکست دے کر ان کا پہلی بار یورو کپ جیتنے کا خواب چکنا چور کردیا۔ پورا ٹورنامنٹ ناقابلِ شکست رہنے والی اسپین سے توقع بھی یہی تھی لیکن انگلش شائقین ’اٹس کمنگ ہوم‘ کی صدائیں لگاتے نہیں تھک رہے تھے۔ میرے خیال سے انہیں اب یہ نعرہ بدل دینا چاہیے کیونکہ یہ انہیں راس نہیں آرہا یا شاید انہیں ہیری کین کے حوالے سے کچھ کرنا ہوگا جو جس ٹیم کا حصہ بنتے ہیں وہ ٹیم کوئی ٹرافی نہیں جیت پاتی۔
انگلش کلب ٹوٹنہم میں مسلسل ٹرافی جیتنے میں ناکامی کے باعث انہوں نے جرمن کلب بائرن میونخ جوائن کیا تو اس کلب پر ان کی بدقسمتی کے سائے ایسے چھائے کہ لگاتار 11 سال سے بندسلیگا جیتنے والی بائرن میونخ اس سال ٹرافی نہیں جیت پائی۔ اب انگلینڈ تو ہیری کین کی قومی ٹیم ہے اور انہوں نے مشکل وقت میں گول اسکور کرکے انگلینڈ کی بہت سے مواقع پر مدد بھی ہے لیکن خود پر ’کرسڈ‘ ہونے کا ٹیگ نہیں ہٹا پا رہے اور انگلینڈ نے مسلسل دوسرے یوروکپ فائنل میں شکست کا سامنا کیا ہے۔
یہ سیزن کلب مقابلوں کے اعتبار سے سنسنی خیز رہا لیکن ایک ہی موسمِ گرما میں فیفا ورلڈ کپ کے بعد سب سے زیادہ اہم تصور کیے جانے والے دو بین الاقوامی ٹورنامنٹس یورو اور کوپا امریکا کی وجہ سے بھی یہ سال کافی ہیجان سے بھرپور رہا۔
15 جون کو جہاں یورو کپ کا آغاز ہوا کہ جس میں یورپ کی 24 ٹیموں نے شرکت کی وہیں 22 جون کو شمالی اور جنوبی امریکا میں ارجنٹینا، برازیل، چلی اور یوروگوئے جیسی فٹبال کی بڑی ٹیمیں کوپا امریکا میں آمنے سامنے آئیں۔ کوپا امریکا میں اگرچہ 16 ٹیمیں شرکت کرتی ہیں لیکن ان کے مقابلے یورو سے زیادہ جارحانہ ہوتے ہیں جہاں فٹبال ٹانگوں سے ہی نہیں بلکہ ہاتھوں اور منہ سے بھی کھیلی جاتی ہے۔
اب ہم نے یہ بات کیوں کہی؟ وہ اس لیے کیونکہ اگر آپ یورو کے مقابلے دیکھیں تو ٹیمیں مہذب انداز میں کھیلتی ہیں اور لڑائی سے اجتناب کرتی ہیں لیکن کوپا امریکا میں ٹیمیں ایک دوسرے پر لاتوں اور مکوں کا استعمال کرنے سے بھی نہیں گھبراتیں جبکہ ان کے شائقین بھی اسی روش پر چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوپا کے مقابلے جارحانہ رخ اختیار کرلیتے ہیں جن کے میچز دیکھنے کا مزا ہی الگ ہوتا ہے۔ یعنی دو ٹورنامنٹس ایک ساتھ کھیلے جارہے تھے جو کھیل کے طرز کی وجہ سے ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
دو ٹورنامنٹس کا ذکر ہوا ہے تو امریکی وقت اور ایشیائی وقت میں بڑے فرق کی وجہ سے کوپا امریکا دیکھنے والے شائقین کو علی الصبح اٹھ کر میچ دیکھنا پڑا جس سے بے اختیار برازیل میں منعقد ہونے والے 2014ء کے فیفا ورلڈ کپ کی یاد آتی ہے کہ جب رمضان کے مہینے میں سحری کے بعد جاگ کر ہم میچز دیکھا کرتے تھے۔
کوپا امریکا 2024ء
میسی کے مداحوں کا میچ کی خاطر اپنی نیند کی قربانی دینا رائیگاں نہیں گیا اور ارجنٹینا نے مسلسل تیسرا بین الاقوامی اعزاز اپنے نام کرلیا۔
کوپا امریکا کے فائنل کی بات کی جائے تو میسی کی انجری کے باعث باہر ہوجانے کے بعد ٹیم کا کھیل مختلف نظر آیا ان کا مورال بھی ڈاؤن ہوا ساتھ ہی وہ کولمبیا کے کھلاڑیوں سے لڑتے بھی نظر آئے۔ لوٹارو مارٹینیز ایکسٹرا ٹائم میں گول اسکور کرکے سیدھا بینچ پر بیٹھے میسی کو گلے لگانے گئے جس نے ثابت کیا کہ یہ ٹیم اپنے لیجنڈ کو مزید معتبر بنانے کے لیے بھرپور محنت کررہی ہے۔
میسی رو رہے تھے تو کچھ فٹبال شائقین نے یہ ضرور سوچا کہ ارجنٹینا کے ساتھ میسی دنیائے فٹبال کے تمام اہم معرکے سر کرچکے ہیں ایسے میں اگر ارجنٹینا ہار بھی گئی تو کیا فرق پڑتا ہے لیکن ایک فٹبالر کی بھوک اپنا کریئر ختم ہونے تک نہیں مٹتی اور وہ ایک کے بعد ایک ٹرافی کی چاہ میں لگا رہتا ہے اور اس کی مثال سعودی کنگز کپ ہارنے والے کرسٹیانو رونالڈو ہیں جو شکست کے بعد پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے۔ خوب سے خوب تر کی خواہش میں لگے رہنا ایک فٹبالر کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔
ساتھ ہی ٹرافی اٹھانے میں ڈی مارییا اور اوٹیمینڈی کو دعوت دینے کا میسی کا اقدام بھی قابلِ تعریف ہے جوکہ پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ یہ ان کا آخری کوپا امریکا ہے۔
یورو کپ 2024ء
اب ذکر کرتے ہیں یورو کپ کی جس کے دلچسپ مقابلوں کی گونج دنیا کے ہر کونے میں سنی گئی۔
یورو کپ کی فاتح اسپین کی کارکردگی پورے ٹورنامنٹ میں بے مثال رہی۔ ناقابلِ شکست رہنے والی اسپین کی کارکردگی میں لامین یمال نے چار چاند لگائے۔ 16 سال کی عمر میں گول اسکور کرکے وہ یورو کی تاریخ کے کم عمر ترین گول اسکورر بنے اور ساتھ ہی پیلے کا ریکارڈ توڑتے ہوئے وہ کسی بھی بین الاقوامی ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے والے دنیا کے کم عمر ترین کھلاڑی بھی بن گئے۔ وہ فائنل سے ایک دن پہلے ہی 17 سال کے ہوئے جبکہ پیلے نے 1958ء کا فائنل 17 سال 262 دنوں کی عمر میں کھیلا تھا۔
میسی، رونالڈو، ٹونی کروز جیسے دنیائے فٹبال کے نامور کھلاڑیوں کو اپنے آخری ٹورنامنٹس کھیلتے دیکھنے میں دکھ ضرور ہوتا لیکن لامین یمال، نیکو ولیمیز، ڈینی اولمو، جمال موسی آلا، ساکا اور پیڈری اور ہولین ایلواریز جیسے کھلاڑیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ فٹبال کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
پیڈری کی انجری پر کافی افسوس ہوا۔ جرمنی کے خلاف کوارٹر فائنل میچ کے ابتدائی لمحات میں ہی ٹونی کروز نے انہیں انجرڈ کردیا تھا۔ میچ سے قبل پیڈری نے بیان دیا تھا کہ یہ ٹونی کروز کا یورو کپ میں آخری میچ ہوگا اور پیڈری کا یوں شروع میں انجرڈ ہوجانا ایک اتفاق تھا۔ ٹونی کروز نے میچ کے بعد معافی مانگی اور کہا کہ نوجوان کھلاڑی کو انجرڈ نہیں کرنا چاہتے تھے جس پر وہ معذرت خواہ ہیں۔ تازہ تازہ انجری سے ریکور ہونے والے بارسلونا اسٹار پیڈری ایک بار پھر انجرڈ ہوچکے ہیں۔ ان کا کھیل اسپین میں ایک مختلف رنگ شامل کرتا ہے لیکن ان کی عدم موجودگی میں بھی اسپین حریفوں پر حملے سے نہیں ہچکچائی۔
نوجوان کھلاڑیوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے اسپین کا کھیل کافی مختلف نظر آیا۔ پاسنگ اور بال پر گرفت (پوژیشن) بنائے رکھنے کے پرانے کھیل میں تبدیلی آئی ہے جسے سب نے محسوس کیا ہے۔ نوجوان خون تبدیلی لے کر آتا ہے اور اب ان کا کھیل جدید طرزِ فٹبال کے مطابق ہے۔ لیکن ایک چیز جو اب بھی کم لگی وہ کاؤنٹر کی صلاحیت ہے۔ بال اپنے پاس آنے کے بعد تیزی سے بھاگنے کے بجائے وہ موو بنانے کی خاطر سست پڑ رہے تھے اور کاؤنٹر اٹیک نہیں کررہے تھے جسے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
پورے یورو کپ میں ترکیہ کی کارکردگی نے کافی متاثر کیا۔ انہوں نے کافی تیز کھیل کھیلا اور اٹیک کے کھیل میں وہ بہت اچھے رہے جبکہ ان کے نئے ستارے اردا گولیر عرف ’ترکش میسی‘ کے کھیل نے کافی متاثر کیا۔ لانگ پاس اور آؤٹ آف دی باکس گول بہت بہترین مارتے ہیں۔
ٹورنامنٹ کا بہترین گول لامین یمال کا تھا یا جوڈ بیلنگہم کی بائی سائیکل کِک؟ اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے کیونکہ دونوں گول ہی لاجواب تھے اور انہوں نے اپنی ٹیم کو فتح دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اس معاملے میں 16 سالہ نوجوان کھلاڑی کو کریڈٹ دینا بنتا ہے کہ جس کے اسکول کا ریزلٹ بھی یورو کپ کے سیمی فائنل سے ایک دن پہلے آیا اور بارسلونا کی کیمپ ٹریننگ میں وہ اپنے اسکول کے ہوم ورک کرتے نظر آئے۔
اتنی چھوٹی عمر میں جادو دکھانے والے لامین یمال کے کریئر کی ابھی شروعات ہے۔ دنیا کے مایہ ناز کھلاڑیوں کو تراشنے والی بارسلونا کلب کی اکیڈمی کس طرح اس ہیرے کو تراشتی ہے اور اسے اپنے پاس رکھتی ہے، یہ اسپین اور بارسلونا دونوں کے لیے اہم ہوگا کہ وہ اس اثاثے کی حفاظت کیسے کرتے ہیں کیونکہ حال ہی میں بارسلونا کے ابھرنے والے ہسپانوی کھلاڑی گاوی اور پیڈری انجری کے باعث اپنے کریئرز کے آغاز میں ہی مشکلات سے گزر رہے ہیں۔
کرسٹیانو رونالڈو بھی اپنے آخری یورو کپ میں ٹرافی نہیں جیت پائے جس کے ساتھ ہی متوقع طور پر ان کا بین الاقوامی کریئر اختتام کو پہنچ چکا۔ ٹونی کروز نے بھی ریال میڈریڈ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی جس کے ساتھ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ریال میڈریڈ کے ساتھ چیمپیئنز لیگ اور جرمنی کے ساتھ یورو جیتنا چاہتے ہیں۔ چیمپیئنز لیگ تو وہ جیت گئے لیکن جرمنی یورو کپ جیتنے میں ناکام رہی جس کے ساتھ ایک اور لیجنڈ کھلاڑی کا کریئر ختم ہوا۔
مجموعی طور پر یورو کپ کے مقابلے انتہائی دلچسپ رہے اور شائقین کا 4 سال کا انتظار ہر گز رائیگاں نہیں گیا۔ کل ومبلنڈن کا فائنل بھی کھیلا گیا تھا جس میں اسپین کے 21 سالہ ٹینس اسٹار کارلوس الکاراز نے نوواک جوکووچ کو شکست دی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا کام کردیا اب اسپین کی فٹبال ٹیم کی باری ہے اور بلاشبہ اسپین نے انہیں مایوس نہیں کیا اور وہ چار بار یورو جیتنے والی پہلی یورپی ٹیم بن گئی۔
کوپا امریکا اور یورو کپ کے فاتحین کا ٹاکرا فینلیسیما میں ہوتا ہے۔ اس بار ارجنٹینا اور اسپین کی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں گی جہاں لامین یمال اور لیونل میسی کا سامنا کافی دلچسپ ہوگا۔ 20 سالہ میسی اور چند مہینوں کے لامین یمال کی تصاویر تو خوب وائرل ہوئیں اور سب کی نظروں سے گزریں اور یمال واضح بھی کرچکے ہیں کہ وہ میسی سے کس حد تک متاثر ہیں۔
فینلیسیما اگلے سال 2025ء کے موسمِ گرما میں کھیلا جائے گا جس کا شائقینِ فٹبال کو بےصبری سے انتظار رہے گا۔