• KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm

’قاتلانہ حملہ ٹرمپ پر ہوا لیکن امریکی شہری بائیڈن کی صحت کے لیے پریشان ہیں‘

شائع July 18, 2024

اس وقت امریکی سیاسی منظرنامہ کچھ یہ ہے کہ لوگ صدر جو بائیڈن کے حریف کے بجائے خود صدر کی صحت کے حوالے سے زیادہ پریشان ہیں حالانکہ گزشتہ اتوار کو ہی ڈونلڈ ٹرمپ قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔

حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیکیورٹی گارڈ سے کہا کہ انہیں اپنے جوتے واپس چاہئیں۔ اسنائپر کی گولی ان کے کان کو چھو کر گزر گئی، بہتے خون کے ساتھ انہوں نے اپنے سیکریٹ سروس کے محافظوں کی جانب سے اسٹیج سے اتارے جانے سے پہلے گارڈز کو رکنے کو کہا اور مکا لہرا کر حاضرین کو ’فائٹ، فائٹ، فائٹ‘ کا پیغام دیا جبکہ سیاہ وین میں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر اپنا مکا لہرایا۔

واقعے کی تصاویر سے اس مؤقف کو تقویت ملی ہے کہ دوبارہ صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے ان کے امکانات روشن ہوگئے ہیں جس کے بارے میں ان کے بہت سے حامیوں کا خیال تھا کہ 2020ء کے انتخابات میں ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا ہے کہ ان کے حریف کو تو چلنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے تو وہ انتخابی دوڑ میں حصہ کیسے لیں گے۔

27 جون کے انتخابی مباحثے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کو اس بات کا احساس ہوجانا چاہیے تھا کہ ٹرمپ کو دوسری بار شکست دینے کے لیے جو بائیڈن پر انحصار کرنا کتنا مضحکہ خیز ہے۔ سیاسی تقاضوں سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ موجودہ امریکی صدر کی جسمانی اور ذہنی حالت ایسی نہیں کہ وہ صدارتی انتخابات میں حصہ لے سکیں۔

جو بائیڈن کا یہ یقین کہ صرف وہی وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کو روک سکتے ہیں، اس میں ابہام ہیں۔ یہ دعویٰ بھی کوئی یقین کے ساتھ نہیں کرسکتا کہ کمالا ہیرس یا کوئی اور متبادل ڈیموکریٹک امیدوار، اپنے ریپبلکن حریف کے مقابلے میں کتنا مضبوط ثابت ہوگا لیکن ہرگزرتے دن کے ساتھ ڈیموکریٹس کے لیے اپنے ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے امکانات مزید کم ہوتے جارہے ہیں۔

رواں ہفتے پیر کو امریکی شہر ملواکی میں ریپبلکن قومی کنوینشن میں جس طرح ٹرمپ کی ’تاج پوشی‘ ہوئی اس نے نیورمبرگ کی ریلی کی یاد تازہ کی لیکن فرق یہ ہے کہ ایڈولف ہٹلر کو اس وقت کان زخمی ہونے کا سیاسی فائدہ حاصل نہیں تھا۔

نائب ریپبلکن صدارتی امیدوار اور امریکی ریاست اوہایو کے سینیٹر جے ڈی وینس نے 8 سال پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کو ’امریکی ہٹلر‘ قرار دیا تھا۔ بعدازاں وہ بھی ’میک امریکا گریٹ اگین‘ کے نعرے کے زیرِاثر آگئے اور اب انہوں نے اتوار کو ہونے والے حملے کا ذمہ دار ڈیموکریٹک مہم کو قرار دیا، حالانکہ 20 سالہ حملہ آور ریپبلک جماعت کا رجسٹرڈ کارکن ہے جس کے حملے کے مقاصد ابھی واضح نہیں ہوسکے۔

یہ تعجب اور بدقسمتی دونوں کی بات ہوگی کہ اگر جو بائیڈن اگلے ماہ شکاگو میں ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنوینشن میں صدارت کی امیدوار کی حیثیت سے دستبردار نہیں ہوتے۔ اتفاق سے رواں سال کے کنوینشن کا موازنہ 1968ء سے کیا جارہا ہے کہ جب شکاگو میں ہی ڈیموکریٹک پارٹی کا کنوینشن ہوا اور اس دوران شہر میں انتہا پسند مظاہرے اور پولیس کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کیا گیا۔

اُس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ امیدوار جان ایف کینیڈی کو تین ماہ سے بھی کم عرصے قبل ریلی میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ جان ایف کینیڈی کا قتل اس وقت ہوا کہ جب تقریباً دو ماہ قبل انہوں نے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل کی خبر عوام کو سنائی تھی۔

1968ء کی صورت حال کافی مشتعل تھی کیونکہ لوگ (مارٹن لوتھر کنگ اور کچھ حد تک جان ایف کینیڈی کی طرح) ویت نام میں امریکی ہولناکیوں سے ناراض تھے۔ قتل سے ایک سال قبل مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے اپنے ملک کی حکومت کو ’آج کی دنیا میں تشدد کا سب سے بڑا پیروکار‘ قرار دیا تھا۔

وہ اس وقت درست تھے اور شاید وہ آج کے دور میں ایسا کہتے تب بھی درست ہوتے لیکن اس سے امریکی سیاسی طبقے کے ضمیر متاثر نہیں ہوتے جو ایک جانب سیاسی تشدد کی مذمت کرتی ہے لیکن دوسری جانب وہ اپنے ملک میں اسٹیٹس کو کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور ساتھ ہی مختلف ذرائع کی مدد سے دنیا کے دیگر ممالک میں بھی تشدد میں ملوث ہے۔ خیال ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں جو بائیڈن کی حیثیت مضبوط ہے لیکن دیکھا جائے تو خارجہ پالیسی میں روس اور یوکرین کا تنازع اور فلسطین کی تباہی ہی نظر آرہی ہے۔

بطور سینیٹر جو بائیڈن کے دور نے ظاہر کیا کہ وہ تقسیم کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے امریکی کارپوریٹ اداروں اور ملٹری سے بھی روابط تھے۔ پھر نائب صدر اور صدر بننے کے بعد بھی ان کی پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ اگرچہ یہ درست ہے لیکن یہ دعویٰ کافی نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے بھی بدتر ثابت ہوں گے۔ بل کلنٹن اور باراک اوباما کی جمہوری صدارتی ادوار نے جارج ڈبلیو بش اور ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کی راہیں ہموار کیں۔

بائیڈن اب بھی دستبردار ہوکر اپنے ممکنہ ڈیموکریٹک جان نشین کو ڈونلڈ ٹرمپ سے مقابلہ کرنے کا موقع دے سکتے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ انہیں صرف خدا کا الہام ہی دستبرداری پر آمادہ کرسکتا ہے۔ تاہم خاندان، دوست، اتحادی اور عطیہ دہندگان انہیں اس پر آمادہ کرنے کی کوششیں کرسکتے ہیں کیونکہ صدراتی دوڑ میں رہ کر وہ اپنی عمر اور صحت کے ساتھ زیادتی کریں گے۔

وائٹ ہاؤس، سینیٹ اور قدامت پسند سپریم کورٹ میں عمر رسیدہ افراد کی بڑھتی تعداد امریکا کا واحد مسئلہ نہیں۔ امکانات ہیں کہ دنیا میں امریکی طاقت (جو بائیڈن کا ’دنیا پر حکمرانی کا دعویٰ‘) اور 1776ء میں قائم ہونے والی قوم کے استحکام میں نومبر میں صدارتی انتخابات کے بعد کمی آسکتی ہے جوکہ عالمی طاقت کے لیے اچھی چیز ہوسکتی ہے لیکن خود امریکا کے لیے یہ برا ہوگا۔

1968ء میں پال سائمن کے ایک غیرسیاسی گانے کے بول آج بھی بدقسمتی سے موزوں ہیں جس کا اردو ترجمہ یہ ہے، ’اتوار کی صبح صوفے پر بیٹھے، امیدواروں کی بحث دیکھتے، ہنسنا اور شور مچانا، لیکن جب آپ کو فیصلہ کرنا ہو، آپ جس طرف بھی دیکھتے ہیں آپ کو مایوسی ہوتی ہے‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2024
کارٹون : 3 دسمبر 2024