190ملین پاؤنڈ ریفرنس: عمران خان کے وکلا کی اعظم خان، زبیدہ جلال، پرویز خٹک پر جرح مکمل
190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین، سابق وزیر اعظم عمران خان کے وکلا نے استغاثہ کے گواہان وزیر اعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، سابق وزرا زبیدہ جلال اور پرویز خٹک پر جرح مکمل کرلی۔
احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد علی وڑائچ نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس کی سماعت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کی۔
سماعت کے دوران نیب کی جانب سے وکیل امجد پرویز اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی لیگل ٹیم کے ہمراہ پیش ہوئے، ملزمان کی جانب سے چوہدری ظہیر عباس عدالت میں پیش ہوئے جب کہ بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل آج عدالت میں پیش نہ ہوئے۔
دوران سماعت عمران خان کے وکلا کی جانب سے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، سابق وزیر زبیدہ جلال اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کے بیانات پر جرح مکمل کر لی گئی۔
سماعت کے دوران عمران خان کو انگریزی روزنامہ اخبار فراہم کرنے کی درخواست بھی دائر کی گئی۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ کے مزید 2 گواہان کو بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کرتے ہوئے ریفرنس کی سماعت 22 جولائی تک ملتوی کر دی۔
آئندہ سماعت پر بشریٰ بی بی کے وکلا گواہان اعظم خان، زبیدہ جلال اور پرویز خٹک پر جرح بھی مکمل کریں گے۔
یاد رہے کہ 13 جولائی کی سماعت کے دوران سابق وزیر مملکت زبیدہ جلال اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کا بیان قلمبند کرلیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔