• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:25pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:49pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:52pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:25pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:49pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:52pm

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا تحریری احکامات جاری کرنے میں تاخیر پر افسوس کا اظہار

شائع July 26, 2024
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو: ڈان نیوز
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو: ڈان نیوز

ججز کی طرف سے تحریری احکامات جاری کرنے میں غیر معمولی تاخیر پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے توجہ مبذول کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو ’مناسب وقت‘ میں فیصلہ جاری کرنے کا مشورہ دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو ایک تحریری حکم کے ساتھ اپنے اضافی نوٹ میں، چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز کو اپنے کام کی اخلاقیات میں بالاتر ہونا چاہیے اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ سماعت ختم ہونے کے فوراً بعد قانون اور پریکٹس کے مطابق تحریری احکامات جاری کیے جانے چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ کی طرف سے تصنیف کردہ 16 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں سندھ ہائی کورٹ کے جون 2013 کے فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 کے سیکشن 3 اے کو غیر قانونی قرار دینے کے حکم کو کالعدم قرار دینے کی وجوہات کی وضاحت کی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی سماعت 6 دسمبر 2023 کو ہوئی اور اسی دن جسٹس من اللہ کو فیصلہ لکھنے کے لیے نامزد کیا گیا لیکن انہیں ایسا کرنے میں 223 دن لگے۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ جسٹس من اللہ نے انہیں 18 جولائی کو فیصلہ بھیجا اور اگلے ہی دن انہوں نے اپنا نوٹ لکھا اور اس پر دستخط کر دیے۔

انہوں نے کوڈ آف سول پروسیجر، 1908 کے آرڈر XX رول 1(2) کا ذکر کیا، جو سول مقدمات کے فیصلے کے طریقہ کار کا خاکہ پیش کرتا ہے، یہ آرڈر تجویز کرتا ہے کہ فیصلے کا تحریری حکم نامہ 30 دن کے اندر لکھا جائے۔

چیف جسٹس نے نوٹ کیا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے کی ایک بڑی رقم عدالت پر خرچ کی جاتی ہے، اور اس لیے ججز کو مقدمات کا فیصلہ ’محنت اور تندہی سے‘ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس نے عدالت کے ماضی کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر تحریری احکامات جاری کرنے میں کافی تاخیر ہوتی ہے تو ججز سماعت کے دوران کیے گئے دلائل کو یاد نہیں کر پائیں گے۔

حکم نامہ

جسٹس اطہر من اللہ چیف جسٹس عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل 3 رکنی بینچ کا حصہ تھے، جنہوں نے ایک ایسے کیس کا فیصلہ کیا جس میں دو ہائی کورٹس نے ایک ہی معاملے پر متضاد احکامات جاری کیے تھے۔

یہ تنازع فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 کے سیکشن 3 اے پر تھا، جسے جون 2007 میں شامل کیا گیا تھا، اس نے حکومت کو یہ اختیار دیا کہ وہ پاکستان میں تیار ہونے والی اور ملک میں درآمد کی جانے والی اشیا پر لیوی وصول کرے اور خصوصی ایکسائز ڈیوٹی عائد کرے۔

اس کے بعد، وفاقی حکومت نے 29 جون 2007 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں ان سامان کی وضاحت کی گئی جس پر لیوی اور خصوصی ایکسائز ڈیوٹی وصول کی جائے گی۔

متعدد درخواست گزاروں کی جانب سے اس نوٹیفکیشن کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تاہم، درخواستیں مئی 2011 میں خارج کر دی گئیں اور اسی طرح انٹرا کورٹ اپیلیں بھی مسترد کردی گئیں، اس کے بعد اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جہاں تین ججوں کی بینچ نے اکتوبر 2011 میں درخواستوں کو خارج کر دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے باوجود، سندھ ہائی کورٹ نے اسی معاملے پر ایک درخواست کی سماعت کی اور اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے نوٹیفکیشن کو مسترد کردیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ کیا کہ اس معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا اور اس طرح یہ فیصلہ دوسری عدالتوں کے لیے پابند ہو گیا، اس لیے سندھ ہائی کورٹ اس معاملے کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔

کارٹون

کارٹون : 18 اکتوبر 2024
کارٹون : 17 اکتوبر 2024