انتخابات سے متعلق متنازع بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے متنازع الیکشن ایکٹ (ترمیمی) بل منظور کروانے کے لیے بظاہر اقدام کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 54(1) کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاکر سینیٹ کا اجلاس 5 اگست (بروز پیر) کو طلب کر لیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ یہ بل، جسے قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی پہلے ہی منظور کر چکی ہے، اسی دن ایوان زیریں میں منظور ہونے کے بعد پیر کی شام کو سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
اس اقدام کا مقصد پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واحد سب سے بڑی جماعت کے طور پر دوبارہ ابھرنے سے روکنا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بل کو سینیٹ کے ذریعے یا تو متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجے بغیر یا کمیٹی کو رپورٹ پیش کرنے کے لیے بہت کم وقت دینے کے بعد پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکمران اتحاد کو ایک بڑا دھچکا لگاتے ہوئے سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کے لیے اہل قرار دے دیا تھا۔
یہ فیصلہ 13 رکنی بینچ نے سنایا اور اسے یوٹیوب پر لائیو سٹریم کیا گیا، اس سے ایک دن پہلے عدالت نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں سے انکار کے خلاف دائر اپیلوں کے ایک سیٹ پر سماعت ختم کرنے کے بعد اس معاملے پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
30 جولائی کو انتخابی قانون میں ترامیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز بلال اظہر کیانی کی طرف سے پیش کیے گیئے بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مقررہ وقت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اسے خواتین اور غیر مسلم امیدواروں کے لیے مخصوص نشستیں مختص نہیں کی جانی چاہیے۔
الیکشنز ایکٹ 2017 میں تجویز کردہ ایک اور ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی امیدوار نے انتخابی نشان الاٹ کرنے سے پہلے کسی پارٹی سے اپنی وابستگی کے بارے میں ریٹرننگ افسر کے پاس اعلامیہ دائر نہیں کیا ہے تو اسے آزاد قانون ساز تصور کیا جانا چاہیے، اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آزاد امیدوار کو کسی پارٹی کا امیدوار نہیں سمجھا جائے گا اگر وہ بعد کے مرحلے میں اس ا سے متعلق بیان حلفی داخل کریں تو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 66 اور 104 میں ترامیم میں یہ اعلان بھی شامل ہے کہ مجوزہ ترامیم عدالتی احکامات پر مقدم ہوں گی۔
31 جولائی کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے منظور ہونے والے متنازع بل کو سیاسی مبصرین کی طرف سے مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے اثر کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔