امیر جماعت اسلامی نے جاگیرداروں کے خلاف گھیرا تنگ، لینڈ ریفارمز کا مطالبہ کردیا
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے ملک میں لینڈ ریفارمز اور جاگیرداروں کے خلاف اقدامات کرنے کا مطالبہ کردیا ہے، جبکہ عوام کے غم و غصے کے حوالے سے بھی خبردار کردیا ہے۔
سربراہ جماعت اسلامی کا راولپنڈی میں خطاب کے دوران کہنا تھا کہ پہلے ہی ملک میں بغاوت اور غم و غصے کی صورتحال ہے، حکومت، عوام اور اداروں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ جب یہ فاصلہ بڑھتا ہے تو اُتنا ہی فساد بڑھتا ہے۔ ہم مزید کسی ایسی چیز میں لوگوں کو مبتلا کرنا نہیں چاہتے، لیکن اگر حکومت یہ سمجھے کہ یہ ہماری کمزوری ہے، تو ایسا نہیں ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن کا خطاب کے دوران کہنا تھا کہ آج دھرنے کا 14 واں روز ہے، ہمارے مطالبات واضح ہیں، آئی پی پیز کو لگام دیں، تنخواہ دار کے ٹیرف کو کم کریں، بڑے جاگیرداروں پر ٹیکس لگائیں۔
جماعت اسلامی کے امیر کا سوال اٹھاتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں اس طبقے کو استثنیٰ کیوں حاصل ہے، ایک غریب تو اپنے موبائل فون کے کارڈ پر ٹیکس ادا کرے، لیکن جاگیردار ٹیکس ادا نہ کرے، تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ تنخواہ دار 368 ارب روپے ٹیکس دے اور جاگیردار پورے پاکستان میں صرف 5 ارب روپے جمع کرائے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے راولپنڈی میں مہنگائی کے خلاف دھرنا دیا جا رہا ہے، دھرنے سے خطاب میں حافظ نعیم کا مزید کہنا تھا کہ ہم چھوٹے کسانوں کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کو ریلیف ملنا چاہیے، مگر بڑے جاگیرداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے اور ان سے ٹیکس وصولی یقینی بنانی چاہیے۔
جاگیرداروں سے متعلق حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ ان جاگیرداروں کو زمین انگریزوں نے دی تھی، یہ انہوں نے محنت سے نہیں کمائی، آج اُن کی اولادیں مزے کر رہی ہیں۔ سیاست، سماج پر گرفت بھی انہی جاگیرداروں کی ہے، دولت، معیشت، زراعت، فصل، ملیں سب انہی کی ہیں۔یہ ایک ایسا طبقہ ہے، جس نے اپنی محنت سے نہیں کمایا ہے، ان کی زمینیں کسانوں میں تقسیم ہونی چاہیے، ساتھ ہی حافط نعیم الرحمٰن نے زمینی اصلاحات کا بھی مطالبہ کردیا۔
امیر جماعت اسلامی نے کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ محروم و مجبور کسانوں کی بات کرنے کا کریڈٹ جماعت اسلامی کو جاتا ہے، اس سسٹم کو ننگا کر کے واضح کردیا ہے کہ کون لوگ ہیں جو اس سسٹم سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں، اور کون لوگ ہیں جن کا استحصال کیا جا رہا ہے۔
خطاب کے دوران حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے ایکسپورٹ کو خراب کرنے کے لیے ایف بی آر کو کھلی چھوٹ دی ہے، کہ آپ جائیں، اس کا تجزیہ کریں اور اس کا نتیجہ کریں، حافظ نعیم کی جانب سے دعویٰ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایف بی آر کو عدالتی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ ایکسپورٹر کہتا ہے کہ ہم اضافے کے ساتھ بھی ٹیکس قبول کر لیتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ ایف بی آر کا دھندا شامل نہ ہو۔
جماعت اسلامی کے امیر کی جانب سے مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایکسپورٹرز سے آپ ٹیکس اسی طرح لیں، جس طرح چلا آ رہا ہے۔ ایف بی آر کے 22 سے 25 ملازمین ہیں، خود ایف بی آر کے ادارے کے حوالے سے تحقیقات ہوئیں ۔1299 ارب روپے کی کرپسن سامنے آئی، جو پیسے ٹیکس میں وصول کیےجانے تھے، وہ رشوت کے عوض چھوڑ دیے گئے۔
حافظ نعیم کا مزید کہنا تھا کہ جو ٹیکس دے رہے ہیں، انہیں رشوت دے کر چھوڑ دیا گیا۔ آپ مارے مارے پھر رہے ہیں لوگوں سے 1 ارب کی بھیگ مانگتے ہیں، تقریبا 4 سے 5 ارب ڈالر کی کرپشن ایف بی آر والا کر رہا ہے۔