اولمپکس میں تاریخی کامیابی پر ہیرو ارشد ندیم کے گاؤں میں جشن کا سماں
پیرس اولمپکس پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم کی تاریخی کامیابی کے بعد ان کے گاؤں میں جشن کا سماں ہے، اور ان کے گھر کے سامنے درجنوں افراد ان کی فتح پر خوشیاں منانے جمع ہو گئے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اس مقابلے کو ایک ڈیجیٹل پروجیکٹر کے ذریعے صوبہ پنجاب کے چھوٹے شہر میاں چنوں کے قریب ان کے زرعی گاؤں میں ٹرک کے پیچھے لگائی ہوئی اسکرین پر براہ راست نشر کیا گیا۔
جیسے ہی ارشد ندیم کا جیولن اولمپک کے ایک نئے ریکارڈ اور سونے کے تمغے کے لیے پیرس کی فضا میں نام اونچائی پر بلند ہوا، تو اسی دوران ان کے دیہات میں جشن کا سماں تھا۔
ارشد ندیم کے 35 سالہ بھائی محمد عظیم نے بتایا کہ انہوں نے زبردست تھرو اور تاریخ رقم کی ہے، ہمیں ان پر فخر ہے۔
جب یہ واضح ہوگیا تھا کہ وہ جیت جائیں گے ،اس دوران مردوں نے ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا، نعرے لگائے اور کچھ افراد تالیاں بجاتے نظر آئے۔
اس دوران خواتین ارشد ندیم کے گھر کے اندر ایک چھوٹے سے ٹی وی کے گرد ہجوم بنا کر بیٹھی رہیں۔
ان کی والدہ رضیہ پروین کا کہنا تھا کہ ’ارشد ندیم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اچھے کھیل کا مظاہرہ کرے گا، بیرون ملک جائے گا، تمغہ جیتے گا اور پاکستان کا سر فخر سے بلند کرے گا‘۔
خستہ حال سازوسامان کے ساتھ مشق کرنے اور اپنے بین الاقوامی حریفوں کی طرح جم اور تربیتی میدانوں تک بہت کم رسائی ہونے کے باوجود پاکستانی ایتھلیٹ نے 32 سالوں میں پاکستان کو پہلا اولمپک میڈل دلایا ہے۔
پہلی بار ارشد ندیم کی صلاحیتوں کو دیکھنے والے ان کے سابق کوچ رشید احمد کا کہنا تھا کہ ’میاں چنوں کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم سب سے پہلے کرکٹ کی طرف راغب ہوئے تھے، مزید کہا کہ ارشد ندیم نے بین الاقوامی سطح پر پاکستانی قومی پرچم کو بلند کیا ہے۔
زیادہ تر پاکستانیوں کی طرح سب سے پہلے کرکٹ کی طرف راغب ہونے والے 27 سالہ ارشد ندیم ایک ریٹائرڈ ٹھیکے دار کے بیٹے ہیں، جن کا 8 بہن بھائیوں میں تیسرا نمبر ہے۔
پاکستانی ایتھلیٹ کے بڑے بھائی شاہد ندیم کا اس موقع پر کہنا تھا کہ میں نے ارشد ندیم کو کرکٹ چھوڑ کر نیزہ بازی شروع کرنے پر آمادہ کیا اور یہ کام میں نے ایک ایسے وقت میں کیا جب کوئی نہیں جانتا تھا کہ نیزہ بازی کیا ہوتی ہے۔
اہلخانہ کے جشن منانے کے دوران ان کے بھائی کا کہنا تھا کہ وہ اس جیولین کو اولمپکس میں اپنے ساتھ لے گئے تھے، جس کی بدولت انہوں نے ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے اور سونے کا تمغہ جیتا ہے۔
مزید آزاں، ریٹائرڈ مقامی اسپورٹس حکام پرویز احمد ڈوگر نے اے ایف پی کو ارشد ندیم کو پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بتایا۔
پرویز احمد ڈوگر کہنا تھا کہ وہ اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب کھلاڑی لکڑی کی چھڑیوں کے گرد رسی باندھ کر جیولین کے طور پر استعمال کرتے تھے، جس کا سرا زمین پر نہیں لینڈ کرتا تھا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان کے پاس جیولین کی تیاری کے لیے ٹریک اور فیلڈ کی طرح مناسب گراؤنڈ نہیں ہے، اس لیے کھلاڑیوں کو کرکٹ کے میدان پر ہی تربیت کرنی پڑتی ہے۔
قبل ازیں، مارچ میں ارشد ندیم نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے پاس صرف ایک جیولین ہوتی تھی، جسے وہ پچھلے 7 سالوں سے استعمال کرتے آرہے تھے اور وہ خراب ہو گئی تھی۔
اپنی جیت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ارشد ندیم کہنا تھا کہ ان کی تمام تر جدوجہد کارآمد ثابت ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ، جب میں نے جیولن پھینکی تو مجھے اس کے ہاتھ سے نکلنے کا احساس ہوا اور ایسا محسوس ہوا کہ یہ اولمپک ریکارڈ ہوسکتا ہے’۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پیرس اولمپکس میں جیولین تھرو کے مقابلوں میں پاکستان کے ارشد ندیم نے تاریخ رقم کرتے ہوئے اولمپک کی تاریخ کی سب سے بڑی 92.97 میٹر کی تھرو کرتے ہوئے پاکستان کو 40سال بعد اولمپک میں گولڈ میڈل جتوایا۔
پاکستان کے ارشد ندیم پہلی تھرو صحیح نہ کر سکے اور ان کی پہلی تھرو کو فاؤل قرار دے دیا گیا تھا، تیسرے راؤنڈ میں پاکستان کے ارشد ندیم نے 88.72 میٹرز کی تھرو کی جبکہ جمہوریہ چیک کے جیکب ویڈلیج نے 88.50 میٹر دور نیزہ پھینکا۔
ارشد ندیم نے چوتھی تھرو میں نیزہ 79.40 میٹرز دور پھینکا، انہوں نے پانچویں تھرو کیا تو نیزہ 84.87 میٹر دور جا گرا۔
چھٹے اور آخری راؤنڈ میں پاکستان کے ارشد ندیم نے مقابلے میں دوسری بہترین تھرو کرتے ہوئے نیزہ 91.79 میٹرز دور پھینک کر اولمپک کی دوسری بہترین تھرو کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔