• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

فیض حمید کے کورٹ مارشل کے سلسلے میں مزید 3 ریٹائرڈ فوجی افسران کو تحویل میں لے لیا گیا

شائع August 15, 2024
— فائل فوٹو: آئی ایس پی آر
— فائل فوٹو: آئی ایس پی آر

پاک فوج کے شعبہ ابلاغ عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا ہے کہ مزید 3 ریٹائرڈ فوجی افسران کو تحویل میں لےلیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بعض ریٹائرڈ افسران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مزید تفتیش جاری ہے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ تینوں افسران کو فیض حمید کے کورٹ مارشل کے سلسلے میں تحویل میں لیاگیا، تینوں ریٹائرڈ افسران ملٹری ڈسپلن کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ آئی ایس پی آر کے بیان میں تینوں افسران کے نام اور رینک سے متعلق کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

تاہم ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ فوجی تحویل میں لیے گئے ریٹائرڈ افسران میں 2 ریٹائرڈ بریگیڈیئر اور ایک ریٹائرڈ کرنل شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ بریگیڈیئر (ر) غفار، بریگیڈیئر(ر) نعیم تحویل میں لیے گئے افسران میں شامل ہیں، تینوں ریٹائرڈ افسران پیغام رسانی کا کام کرتے تھے، تحویل میں لیےگئے 2 سابق بریگیڈیئرز کا تعلق پنجاب کے شہر چکوال سے ہے، تینوں افسران ایک سیاسی جماعت اور فیض حمید کے درمیان رابطہ کاری میں شامل تھے۔

یاد رہے کہ 12 اگست کو نجی ہاؤسنگ اسکیم ٹاپ سٹی کے معاملے میں مداخلت سمیت پاکستان آرمی ایکٹ کی دیگر خلاف ورزیوں پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے کر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر ٹاپ سٹی کی کورٹ آف انکوائری شروع کی گئی۔

آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔

بعد ازاں 13 اگست کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا تھا کہ سانحہ 9 مئی کے حالات و واقعات بھی فیض حمید کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، مگر وہ اکیلے ملوث نہیں تھے۔

15 اگست کو بانی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے کہنے پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو عہدے سے ہٹایا جس پر میری سابق سپہ سالار سے سخت تلخ کلامی ہوئی تھی۔

جنرل فیض حمید کے خلاف کیس

فوج نے مبینہ طور پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کے لیے رواں سال اپریل میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ یہ کمیٹی فوج نے خود احتسابی کے اشارے کے طور پر تشکیل دی تھی اور اس کی سربراہی ایک حاضر سروس میجر جنرل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی سپریم کورٹ اور وزارت دفاع کی ہدایات کی روشنی میں تشکیل دی گئی ۔

گزشتہ سال 14 نومبر کو جاری ہونے والے اپنے تحریری حکم میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کو “نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر وہ سچ ثابت ہوئے تو یہ ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں، اور اگر درست ہیں تو بلاشبہ وفاقی حکومت، مسلح افواج، آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے، لہٰذا ان پر توجہ دینی چاہیے۔

ایک نجی ہاؤسنگ اسکیم ٹاپ سٹی کی انتظامیہ نے سابق آئی ایس آئی چیف کے خلاف سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ فیض حمید نے اس کے مالک معیز خان کے دفاتر اور رہائش گاہ پر چھاپے کا منصوبہ بنایا تھا۔

نومبر 2023 میں سپریم کورٹ نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک سے کہا تھا کہ وہ سابق جاسوس اور اس کے معاونین کے خلاف اپنی شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ حلقوں سے رجوع کرے۔

رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ نئی تشکیل شدہ انکوائری کمیٹی اپنے نتائج کی روشنی میں اپنی رپورٹ تیار کرے گی اور متعلقہ حکام کو پیش کرے گی۔

مارچ 2023 میں اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ سابق آئی ایس آئی باس اور ان کے بھائی کے خلاف مبینہ بدعنوانی اور آمدن سے زائد اثاثے جمع کرنے کی تحقیقات جاری ہیں۔

مارچ 2024 میں راولپنڈی کی ایک عدالت نے فیض حمید کے بھائی ریٹائرڈ نائب تحصیلدار نجف حمید کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا تھا، نجف حمید نے شریک ملزمان کے ساتھ راولپنڈی میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں درج ایف آئی آر میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کی تھی، ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا تھا کہ سابق وزیر معدنی وسائل حافظ عمار یاسر نے بے نامی داروں کے نام پر اربوں روپے کی جائیدادیں بنائیں۔

ریٹائرمنٹ اور متنازع ماضی

نامعلوم ذرائع کے مطابق، جنرل حمید نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کا انتخاب کیا تھا اور نومبر 2022 میں اپنا استعفیٰ ہائی کمانڈ کو بھیج دیا تھا، انہیں جون 2019 میں آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔

فوج نے 6 اکتوبر 2021 کو اعلان کیا تھا کہ جنرل حمید کو پشاور کا کور کمانڈر مقرر کیا گیا ہے، جب کہ ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل انجم کو تعینات کیا گیا ہے، لیکن وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) نے تین ہفتے بعد تک لیفٹیننٹ جنرل انجم کی تقرری کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تھا، جس کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔

تاخیر کے بعد دفتر نے بالآخر 26 اکتوبر 2021 کو لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی نئے آئی ایس آئی سربراہ کے طور پر تقرری کی اطلاع دی، عمران نے بعد میں کہا تھا کہ وہ کبھی بھی اپنا آرمی چیف نہیں لانا چاہتے تھے اور انہوں نے پاکستانی فوج کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔

جنرل فیض حمید ان چھ سینئر ترین جنرلز میں شامل تھے جن کا نام جنرل ہیڈ کوارٹرز نے دو اعلیٰ فوجی دفاتر کے لیے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں شامل کیا تھا، جو نومبر 2022 میں منظوری کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کو بھیجی گئی تھی۔

بہاولپور کور کمانڈر کا عہدہ سنبھالنے سے قبل جنرل فیض حمید پشاور میں اسی عہدے پر کام کر چکے تھے۔

سابق اسپائی ماسٹر گزشتہ ایک دہائی سے ملک کے سیاسی منظر نامے میں کئی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔

جنرل فیض حمید کا نام سب سے پہلے لوگوں کی نظروں میں اس وقت آیا جب انہوں نے نومبر 2017 میں ایک معاہدے کے ذریعے تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے کو ختم کرنے میں مدد کی۔

اس واقعے کے از خود نوٹس میں، سپریم کورٹ نے فروری 2019 میں فیصلہ دیا تھا کہ آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو، ملٹری انٹیلی جنس، اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کو اپنے متعلقہ مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔

وہ مسلم لیگ (ن) کے سپریم لیڈر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے مبینہ طور پر ان کی سزاؤں میں کردار ادا کرنے اور پی ٹی آئی کے تحت سابقہ ​​سیٹ اپ کی حمایت کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنے تھے۔

جولائی 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے ایک سیکیورٹی ایجنسی کے اہلکاروں پر یہ دعویٰ کرتے ہوئے سنگین الزامات عائد کیے تھے کہ وہ عدالتی کارروائی میں ہیرا پھیری کر رہے ہیں، انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایجنسیوں نے اسلام آباد کے چیف جسٹس سے رابطہ کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ نواز اور مریم انتخابات کے لیے سلاخوں کے پیچھے رہیں، بعد ازاں جج کو برطرف کر دیا گیا تھا۔

تاہم، دسمبر 2023 میں، انہوں نے اپنی برطرفی کے خلاف کیس میں کئی ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں کے ساتھ ساتھ کچھ سابق ججوں کو بھی فریق بنایا تھا۔

سابق جج کی جانب سے سینئر وکیل حامد خان نے سپریم کورٹ میں ایک ترمیم شدہ درخواست دائر کی تھی کہ ان کی درخواست میں سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، جنرل فیض حمید، تین ریٹائرڈ بریگیڈیئرز عرفان رامے، فیصل مروت اور طاہر کو مدعا علیہ کے طور پر نامزد کیا جائے۔

جنرل فیض حمید نے درخواست کے جواب میں نواز اور مریم کی نظربندی کو طول دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچوں کی تشکیل میں ان کے ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جج نے انہیں بغیر کسی وجہ کے کیس میں گھسیٹا تھا۔

مزید برآں، اس وقت کے انسانی حقوق کے وزیر ریاض پیرزادہ نے فروری 2023 میں دعویٰ کیا کہ جنرل فیض حمید کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو ملک میں واپس لانا چاہتے ہیں۔

مئی 2023 میں، سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے جنرل حمید پر القادر ٹرسٹ کیس کے آرکیٹیکٹ، ماسٹر مائنڈ، اور سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے کا الزام لگایا تھا۔

مقدمے میں الزام لگایا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ نے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے 50 ارب روپے کی قانونی حیثیت کے لیے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔

پٹیشن

پٹیشن کے مطابق 12 مئی 2017 کو، پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے مبینہ دہشت گردی کے مقدمے کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معز کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور سونے اور ہیروں کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان چھین لیا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ جنرل حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی, اپنی بریت کے بعد، درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ، جنرل حمید نے معز کے کزن اور فوج میں ایک بریگیڈیئر کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کیا۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران جنرل فیض حمید نے درخواست گزار کو بتایا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینے گئے 400 تولہ سونا اور نقدی کے علاوہ کچھ چیزیں واپس کردیں گے۔

درخواست میں بتایا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کے لیے ایک نجی آپ ٹی وی نیٹ ورک کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔

درخواست کے مطابق، آئی ایس آئی کے سابق اہلکار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024