غزہ جنگ بندی کے حوالے سے قاہرہ میں تعمیری بات چیت ہوئی، امریکا
امریکا نے کہا ہے کہ کل رات مصر کے دار الحکومت قاہرہ میں غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے تعمیری نوعیت کی بات چیت ہوئی اور وہ چاہتا ہے کہ آئندہ 2 روز تک اسی طرح کی بات چیت جاری رہے۔
وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے غزہ جنگ بندی کے حوالے سے جاری مذاکرات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کل رات قاہرہ میں غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے جو چیت ہوئی تھی وہ تعمیری نوعیت کی تھی، لہذا ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ آئندہ دو دنوں میں اسی طرح کی صورتحال برقرار رہے۔
انہوں نے کہا کہ آخری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں، یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس کے بارے میں سوچیں کہ یہ ڈیل غزہ کے لوگوں کے لیے کیا کردار ادا کرے گی، یہ غزہ کے لوگوں کو سکون کا دور دے گی، یہ ڈیل جنگ، تشدد اور خونریزی کے ممکنہ خاتمے کا موقع دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ڈیل کے باعث جنگ رکنے کی وجہ سے انہیں (غزہ کے لوگوں)، امریکا سمیت سب کو ایک انتہائی اہم موقع ملے گا کہ ہم انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد میں مزید اضافہ کریں جس کی اشد ضرورت ہے اور یہ ڈیل یرغمالیوں کو ان کے اہل خانہ کے پاس ان کے گھر پہنچادے گی۔
واضح رہے کہ غزہ میں 10 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے بعد امریکا اور مذاکرات کے ثالث مصر اور قطر کے حکام قاہرہ میں مذاکرات کر رہ ہیں جب کہ اسرائیل کے وحشیانہ حملوں اور بمباری نے تقریباً غزہ کو تباہ کر دیا ہے جس سے اس کی تقریباً تمام آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور محصور فلسطینی علاقے میں ایک انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔
گزشتہ روز اسرائیلی اخبار یدیوتھ اہرونوتھ نے مذاکرات سے باخبر عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ نیتن یاہو کی جانب سے تجویز قبول کرنے کے بلنکن کے بیان کے حوالے سے امریکا نے اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا ہے۔
اسرائیلی روزنامہ نے کہا تھا کہ معاہدے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن قاہرہ میں جمعہ اور ہفتہ کو مذاکرات کے انعقاد کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور مشرق وسطیٰ کے امریکی ایلچی بریٹ میک گرک کو پہلے ہی وہاں بھیجا جا چکا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق میں صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور معاہدے کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو منطقی انجام تک پہنچانے پر زور دیا۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ بائیڈن نے امریکا کی جانب سے مکمل تعاون دلاتے ہوئے کہا کہ وہ ایران اور اس کے اتحادیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اسرائیل کی مدد کریں گے۔
حماس نے اتوار کو اپنے بیان میں امریکا پر معاہدے میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی تجویز نیتن یاہو کی شرائط کے عین مطابق ہے۔
اسرائیل کے ہاتھوں اسمٰعیل ہنیہ اور فواد شکر کی شہادت کے بعد جنگ کے پورے خطے میں پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا جس کو روکنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جنگ بندی کے حوالے سے معاملات میں پیش رفت کے لیے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا تھا لیکن گزشتہ روز وہ کسی پیشرفت کے بغیر وطن واپس لوٹ گئے تھے۔
انٹونی بلنکن نے اپنے دورے کے دوران قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات نہیں کر سکے تھے اور اسے لیے انہوں نے ان سے ٹیلیفونک گفتگو کی۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے جنگ بندی کی حالیہ کوششوں پر تبادلہ خیال کیا اور اس بات کی توثیق کی کہ خطے میں کسی بھی فریق کو معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لیے اقدامات نہیں اٹھانا چاہیے۔
معاہدے میں ڈیڈ لاک کی سب سے بڑی وجہ غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کا حماس کا مطالبہ ہے لیکن اس پر رضامند نہیں۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل مصر سے متصل فلسطینی سرحد پر فوجیں رکھنا چاہتا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں فلڈیلفیا راہداری سے اسرائیل کی دستبرداری کے حوالے سے رپورٹس کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ کے مقاصد کے حصول کے لیے خزہ کی جنوبی سرحد کا تحفظ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
حکومتی ترجمان ڈیوڈ مینسر کا کہنا تھا کہ حماس اس راہداری کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے لیے استعمال کرتا ہے۔
انٹونی بلنکن نے اپنے دورے کے دوران دوحہ میں گفتگو کے دوران فلڈیلفیا کا براہ راست ذکر کیے بغیر کہا تھا کہ امریکا، اسرائیل کے غزہ پر طویل مدتی قبضے کو قبول نہیں کرتا۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر سے جاری اس جنگ میں اب تک اسرائیل بمباری میں 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں۔