قاہرہ: غزہ جنگ بندی مذاکرات میں اسرائیل اور حماس کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہوسکا
مصری سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ غزہ میں 10 ماہ سے جاری جنگ کو روکنے کے لیے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کے دوران کوئی معاہدہ نہ ہوسکا، اسرائیل اور حماس نے ثالثوں کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر اتفاق نہیں کیا۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق دو مصری سیکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ قاہرہ میں غزہ کی جنگ بندی سے متعلق مذاکرات میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
تاہم ایک سینئر امریکی حکام نے ان مذاکرات کو ’تعمیری‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق ’حتمی اور قابل عمل معاہدے‘ تک پہنچنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا یہ سلسلہ ورکنگ گروپس کی جانب سے آنے والے دنوں میں جاری رہے گا تاکہ باقی مسائل کو حل کیا جاسکے، جس کے لیے ٹیمیں قاہرہ میں ہی رہیں گی۔
حماس کا ایک وفد اتوار کے روز ثالثوں کے ساتھ بات چیت کے بعد قاہرہ سے روانہ ہوگیا جب کہ حماس کے سینئر رہنما عزت الرشیق نے کہا کہ حماس نے کسی بھی معاہدے میں مستقل جنگ بندی اور غزہ سے مکمل اسرائیلی فورسز کے انخلا کے مطالبے پر زور دیا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے کئی ماہ سے جاری رہنے والے مذاکرات اسرائیل کی تباہ کن فوجی مہم کو ختم کرنے یا 7 اکتوبر کو فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی جانب سے اغوا کیے گئے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
کینیڈا میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ واشنگٹن ابھی بھی قاہرہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے معاہدے کے لیے کام کررہا ہے۔
امریکا، قطر اور مصر کی ثالثی میں جاری مذاکراتی عمل میں ’فلاڈیلفی کوریڈور‘ میں اسرائیلی فورسز کی مستقل موجودگی ایک اہم نکتہ تھا، فلاڈیلفی کوریڈور غزہ کے جنوب میں مصر کی سرحد کے ساتھ ساڑھے 14 کلو میٹر زمینی پٹی ہے۔
مصری ذرائع نے بتایا کہ ثالثوں نے فلاڈیلفی کوریڈور اور غزہ کو بالکل درمیان سے تقسیم کرنے والے ’نیٹزارم کوریڈور‘ میں اسرائیلی فورسز کی موجودگی کے حوالے سے کئی متبادل تجاویز پیش کیں، لیکن فریقین نے ان تجاویز کو قبول نہیں کیا۔
ذرائع نے مزید کہا کہ فریقین میں غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور حماس کے قید میں موجود افراد کی رہائی کے حوالے سے بھی عدم اتفاق پایا گیا۔
جمعرات سے اسرائیل، امریکا اور مصر کی ٹیموں کے درمیان بہت کچھ ہو چکا ہے، قطر اور مصر نے حماس کے سینئر رہنماؤں سے ملاقات کی اور اتوار کے روز، اسرائیل کے سینئر حکام نے ثالثوں کی مدد سے بقایا مسائل کو حل کرنے کے لیے بات چیت میں شمولیت اختیار کی، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوئی یا نہیں۔
حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ سے فوج کے انخلا کی یقین دہانی سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور اس نے جنگ بندی شروع ہونے پر بے گھر فلسطینیوں کی اسکریننگ سمیت دیگر نئی شرائط پیش کردی ہیں۔
حماس کے رہنما اسامہ حمدان نے الاقصیٰ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 2 جولائی کو جس چیز پر اتفاق کیا تھا اس سے دستبرداری یا نئی شرائط کے بارے میں بات چیت کو قبول نہیں کریں گے۔
حماس کے ایک سینیئر ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ جولائی میں حماس نے امریکا کی پیش کردہ تجاویز کو قبول کرلیا تھا جس میں غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں شامل ہونا اور 7 اکتوبر کے حملے کے یرغمالی مردوں اور فوجیوں کی رہائی شامل تھی۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے گذشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد غزہ پر ناختم ہونے والی فضائی اور زمینی حملوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جب کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں فوری جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود اسرائیلی حملے گزشتہ 10 ماہ سے جاری ہیں۔
اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے، جس نے جنوبی شہر رفح میں فوجی کارروائیوں کو روکنے کا حکم دیا تھا تاہم اسرائیل نے عالمی عدالت کا حکم مسترد کردیا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 42 ہزار 200 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں جب کہ ان حملوں میں 93 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔