• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

انسانی اسمگلنگ اور بھکاریوں کی برآمدات، ’پاکستان کے لیے باعث شرمندگی ہے‘

شائع September 5, 2024

آپ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، پاکستانیوں کو مایوسی کی مختلف صورتوں میں دیکھیں گے۔

آج کے دور میں آپ کسی بھی یورپی ملک کے دارالحکومت جائیں جیسے یونان، روم یا پیرس تو آپ کو وہاں سڑکوں اور گلیوں پر پریشان حال تارکین وطن گروہوں کی صورت میں نظر آئیں گے۔ اگر ان کے قریب سے گزریں تو ممکن ہے کہ ان میں آپ کچھ کو اردو اور پنجابی الفاظ بولتے سنیں۔ یوں آپ کو پتا چلتا ہے کہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔

یہ وہ ’خوش قسمت‘ لوگ ہیں جو زندہ سلامت یورپ پہنچ گئے۔ ان جیسے بہت سے لوگ تو راستے میں ہی اپنی زندگی کی جنگ ہار گئے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے گزشتہ ہفتے شائع کی جانے والی رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ پر بات کی گئی اور پنجاب کے حافظ آباد سے سفر کرنے والے ایک تاریک وطن کے سفر کی کہانی بتائی گئی۔ ہزاروں کی طرح انہوں نے بھی ملک سے باہر اسمگل ہونے کے لیے ایجنٹ کو بھاری رقم ادا کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیسے وہ ایک ایجنٹ سے دوسرے ایجنٹ کے سپرد کیا جاتا رہا کہ جب تک وہ یورپ یا شمالی امریکا تک نہیں پہنچا۔

یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ پاکستان کے تارکین وطن ڈیرئین گیپ جیسے دور دراز علاقوں میں بھی پائے گئے۔ ڈیرئین گیپ براعظم شمالی اور جنوبی امریکا کے درمیان واحد زمینی پل ہے جس کے ذریعے شمالی کولمبیا اور جنوبی پاناما کے درمیان ایک خطرناک راستہ گزرتا ہے جو امریکا کے سرحدی علاقوں کی جانب جاتا ہے۔ وہاں سے تارکین وطن اکثر ایسے مقامات کی جانب جاتے ہیں جس کے حوالے سے وہ تصور کرتے ہیں کہ وہاں انہیں ایک بہتر زندگی میسر ہوگی۔

یورپ میں پاکستانی تارکین وطن اکثر اٹلی کے ساحل سے دور جزیرے لیمپیڈوسا جیسے مقامات پر موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ مصر یا لیبیا کے راستے یہاں پہنچتے ہیں جبکہ ایجنٹس انہیں کشتی پر سوار کرتے ہوئے اٹلی کے ساحل پر پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں۔

ایسے ہی اسمگلرز کے بہکاوے میں آکر گزشتہ موسم گرما میں یونان کے ساحل کے قریب پیش آنے والے کشتی حادثے میں 20 پاکستانی بھی ہلاک ہوئے جن کی کشتی کو یونانی کوسٹ گارڈ نے ڈوبنے دیا اور اس واقعے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ مقدمہ ابھی یونان کی عدالتوں میں زیرسماعت ہے جبکہ زندہ بچ جانے والوں اور جاں بحق افراد کے لواحقین کو انصاف ملنے کا امکان انتہائی کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تاریک وطن کی جان کی قیمت بس یہی ہے۔

رواں صدی کہ جس میں عالمی معیشت اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بحرانوں کی وجہ سے بے پناہ انسانوں نے نقل مکانی کی پیش گوئی کی جارہی ہے، گمان ہوتا ہے کہ جیسے آنے والے دور میں زیادہ سے زیادہ پاکستانی ایک بہتر مستقبل، رزق اور موقع کی تلاش میں زمین پر بھٹکیں گے پھر چاہے اس کا مطلب غیرملکی سرزمین پر اپنی زندگیوں کو دوبارہ بسانا ہی کیوں نہ ہو۔

تاہم جب کوئی پاکستانی مردوں کو یورپ کی سڑکوں پر بھوکے اور دکھی دیکھتا ہے، تو ذہن میں خیال آتا ہے کہ کیا وہ اب بھی یورپی میں رہنے کو بہتر زندگی کی ضمانت سمجھتے ہیں؟

ان میں سے زیادہ تر لوگ محنت کش ہیں جو اس ملک کی زبان سے بھی ناواقف ہیں کہ جہاں وہ نقل مکانی کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عام طور پر ریسٹورنٹس کے پیچھے برتن دھونے اور دیگر معمولی کام کرکے کم رقم کماتے ہیں اور مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں۔ ان کی کمائی کا ایک بڑا حصہ اس قرض کو اتارنے میں لگ جاتا ہے جو انہیں اپنے اسمگلرز کو دینا ہوتا ہے۔

’بہتر زندگی‘ کے سنہرے خواب کا بلبلہ جلد ہی پھوٹ جاتا ہے جو انہیں یہاں لانے والے اسمگلرز نے دکھایا ہوتا ہے۔ وہ بھاری مالی رقم ادا کرکے اور جان کا رسک لے کر پاکستان چھوڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔

مشتبہ ذرائع سے غیرملکی سرزمین آنے والے تمام پاکستانیوں کو ایک ہی طرح کی مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا۔ پاکستان کی ایک صنعت ایسی ہے جو انتہائی منظم ہے اور وہ یہ یقینی بناتے ہیں کہ ان کی صنعت میں بھرتی ہونے والوں کی بیرون ملک اچھی کمائی ہو۔

یہ گداگری ہے۔ وہ اب اتنی وسعت اختیار کرچکی ہے کہ اب وہ برآمدات بھی کررہے ہیں اور دیگر ممالک میں اپنی سرگرمیوں کا دائرہ کار پھیلا رہی ہے۔

یورپ میں ریسٹورنٹس اور دکانوں کے دھوئیں اور بدبو سے بھرے کمروں میں محنت کرنے والے مایوس، کم ہنر مند کارکنوں کے برعکس ان بھکاریوں کو بیرون ملک جانے کے لیے کسی ایجنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے وہ ان زائرین ویزوں کو ترجیح دیتے ہیں جو سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک فراہم کرتے ہیں۔

حج کے دوران بہت سے پاکستانیوں نے خود بھی دیکھا ہوگا کہ پاکستانی بھکاری مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کے باہر موجود ہوتے ہیں جہاں وہ عازمین کو بھیک دینے کے لیے اسی طرح ہراساں کرتے ہیں جیسے وہ پاکستان کی مارکیٹس میں کرتے ہیں۔ یہ بھکاری بالکل بے لگام ہیں اور لوگوں کے جذبات سے کھیلنے میں ماہر ہیں جو جانتے ہیں کہ کس طرح گلٹ کو استعمال کرکے لوگوں سے بھیک لی جائے۔

بھکاریوں کا مسئلہ اتنا سنگین ہوچکا ہے کہ سعودی حکومت نے یہ معاملہ پاکستان کی سرکار کے سامنے بھی اٹھایا ہے۔ حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان نیا معاہدہ طے ہوا ہے جس کے تحت پاکستان نے عہد کیا ہے کہ وہ سعودی عرب بھکاریوں کی برآمدات کو کم کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ حقیقت کہ ہمیں ایسا کوئی عہد کرنا پڑ رہا ہے، اپنے آپ میں ہی قومی سطح پر کافی حد تک شرمناک ہے۔

تاہم جب ہمارے حکمران یہاں سے امیر ممالک میں پیسہ بھیجنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تو اس میں کوئی تعجب نہیں کہ ہمارے بھکاری بھی خود کو مالا مال کرنے کے لیے لوگوں کے جذباتی استحصال کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ محنت سے کام کرنے کی درست حکمت عملی پاکستان کے بھکاریوں اور لیڈران دونوں میں نظر نہیں آتی۔

جیسا کہ بہت سے لوگوں نے نشاندہی کی کہ ایک طرف کم ہنر مند تارکین وطن کی جانب سے پیش کی جانے والی مایوسی کی عجیب و غریب تصویر اور دوسری طرف پریشان کن بھکاریوں کے استحقاق نے بیرون ملک رہنے والے لوگوں کے ذہنوں میں پاکستان اور اس کے باسیوں کی ایک دکھی اور بدحال تصویر بنانے کا سبب ہے۔

حکومت پاکستان نہ صرف انسانی اسمگلنگ کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے بلکہ وہ ان غریب تارکین وطن کی مدد کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتی جو بیرون ملک پاکستانی سفارتی مشنز کے ذریعے بے گھر ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کو بھکاریوں کے حوالے سے اقدامات پر مجبور کرنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں نے مبینہ طور پر پاکستانیوں کو ویزا کا اجرا مکمل طور پر بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔

دوسری جانب وہ پاکستانی جو اسمگلرز کے ذریعے یا بھیک مانگنے کے مقصد سے باہر جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے وہ اپنے سبز پاسپورٹس کے ساتھ گھروں میں بیٹھے ہیں۔ کیونکہ کچھ غلط لوگوں کی حرکتوں سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پاکستانیوں کی سچائی پر بالکل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

لہٰذا طلبہ اور ورکرز جب ویزا کے لیے درخواست دیتے ہیں، انہیں غیر ملکی سفارت خانوں میں اضافی جانچ پڑتال اور ویزے بار بار مسترد کیے جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برے کاموں کا ارتکاب چند لوگ کرتے ہیں لیکن اس کا خمیازہ لامحالہ سب کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024